کتاب: تفہیم دین - صفحہ 243
اپنے اعتکاف کو جاری رکھے۔بیسویں رمضان تھی اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر سے آخری عشرے کا آغاز کر دیا۔(بخاری) ذرا غور فرمائیں کہ آخری عشرے کا اعتکاف اکیسویں رات بعد از غروب آفتاب شروع ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیسویں کے دن کا اعتکاف صحابہ رضی اللہ عنہم سے کیوں کروایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اکیسویں رات کو ہی بلا لیتے اور کہہ دیتے کہ تم نے معتکف تو توڑ پھوڑ دیا ہے اب رات مسجد میں گزارو اور کل صبح یعنی اکیسویں کی صبح کی نماز کے بعد دوبارہ داخل ہو جاؤ۔(مولانا عبدالسلام بستوی کے"اسلامی خطبات")ان حضرات کا یہ کہنا ہے کہ اگر 20 کی صبح کو مسجد میں آ جائے تو ذہنی طور پر لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے اکیسویں کو پورا تیار ہو جاتا ہے جبکہ دوسرے موقف کے لحاظ سے اکیسویں رات جائے اعتکاف سے باہر گزاری اور اعتکاف کے ارادے سے اکیس کی صبح کو معتکف میں داخل ہوا تو آخری عشرے سے ایک رات خارج ہو جائے گی جو ایک نقص بھی ہے،لہذا زیادہ مناسب اور موزوں یہ ہے کہ بیسویں کی صبح کو مسجد میں آ جائے اور نماز کی ادائیگی کے بعد اپنے معتکف میں تیار ہو کر بیٹھ جائے۔اس صورت میں دونوں احادیث پر بہتر عمل ہو جائے گا صرف آخری عشرہ سے 12 گھنٹوں کا اضافہ ہو گا اور اس اضافے میں کوئی مضائقہ نہیں۔حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی موقف کے قائل تھے اور یہ موقف مبنی بر احتیاط ہے۔واللہ اعلم جائز امور:معتکف کے لیے حالت اعتکاف میں نہانا،سر میں کنگھی کرنا،تیل لگانا اور حاجات ضروریہ مثلا پیشاب،پاخانہ،فرض غسل وغیرہ کے لیے جانا درست ہے۔ (بخاری 1/272) اعتکاف بیٹھنے والے کو بلا عذر شرعی اپنے معتکف سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ لیلۃ القدر پہچاننے کی علامات؟ سوال:لیلۃ القدر کی کیا فضیلت ہے اور اس کو پہچاننے کے لیے کیا علامات ہیں؟