کتاب: تفہیم دین - صفحہ 204
بتاؤ اگر وہ فعل حرام میں واقع ہوتا تو کیا اسے گناہ ہوتا؟ پس اس طرح جو فعل حلال طریقے سے کرے گا تو اسے اجر ملے گا۔"(صحیح مسلم) اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر نیکی کا کام انسان کے لئے صدقہ ہوتا ہے،البتہ عرف عام میں وہ مال و متاع جو آدمی اللہ کو راضی کرنے کے لئے کسی فقیر مسکین محتاج اور مجاہد کو دیتا ہے وہ صدقہ کرتا ہے جس طرح محتاج کو صدقہ دینا درست ہے،مجاہدین اسلام کو بھی اسی طرح صدقہ و خیرات دیا جا سکتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:صدقات ان فقراء کے لئے ہے جو اللہ کی راہ(جہاد)میں روکے ہوئے ہیں زمین میں(کاروبار وغیرہ کے لئے)سفر نہیں کر سکتے سوال سے بچنے کی وجہ سے ناواقف انہیں غنی گمان کرتا ہے تو انہیں ان کی علامت سے پہچانے گا لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔(البقرہ:283) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لئے صدقات و خیرات کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے مجاہدین کے لئے صدقات بالکل درست ہیں بلکہ موجودہ حالات میں مجاہدین کو زکوٰۃ و صدقات دے کر کفر کے خاتمے کے لئے میدانوں میں روانہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔یہ مجاہدین کا ہی ایسا گروہ ہے جس سے کفر اور اس کے لیڈر دن رات پریشان رہتے ہیں اور کئی حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔اگر ان مجاہدین کی مدد نہ کی گئی تو پھر پاکستان کے لئے بھی انتہائی زیادہ خطرات ہیں،ہماری مساجد،مدارس،گھر بار تب ہی محفوظ ہوں گے جب جہاد صحیح معنوں میں قائم ہو گا،لہذا ان مجاہدین کے لئے فنڈز صدقات دیں،اللہ تعالیٰ قبول فرمائے بلکہ یہ بھی یاد رہے کہ مجاہدین غنی اور دولت مند بھی ہو تو اسے صدقہ دیا جا سکتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پانچ افراد کے علاوہ کسی دولت مند کو صدقہ حلال نہیں جن میں سے ایک غازی فی سبیل اللہ ہے۔(ابوداؤد کتاب الزکاۃ باب من يجوزلہ اخذ الصدقۃ وھو غنی 1635،1636) اور لوگوں میں جو کالا بکرا یا کالی بکری وغیرہ صدقہ دینے کا تصور ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں صدقہ کسی بھی پاک و حلال مال سے دیا جا سکتا ہے۔اس کے لئے سیاہ و سفید جانور کی کوئی قید نہیں۔