کتاب: تفہیم دین - صفحہ 197
زیورات پر زکوٰۃ سوال:زیر استعمال زیورات،یا استعمال کے لئے عاریتا دینے کے لئے تیار کرائے گئے زیورات کی زکوٰۃ کے بارے میں علماء کا اختلاف معروف ہے،اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اور اگر ان زیورات میں زکوٰۃ واجب ہونے کی بات مان لیں تو کیا اس کا بھی نصاب ہے؟ اور اگر کہتے ہیں کہ ان کا بھی نصاب ہے تو ان احادیث کا کیا جواب ہے جو زیورات میں زکوٰۃ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور جن کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیورات کی زکوٰۃ نہ دینے والوں کو جہنم کی آگ کی وعید سنائی ہے مگر ان سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وہ نصاب زکوٰۃ کو نہیں پہنچتے ہیں؟ جواب:سونے اور چاندی کے زیورات جو زیر استعمال ہیں یا استعمال کے لئے یا عاریتہ دینے کے لئے بنوائے گئے ہیں ان میں زکوٰۃ کے واجب ہونے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف معروف و مشہور ہے لیکن راجح قول یہی ہے کہ ان زیورات میں بھی زکوٰۃ واجب ہے،کیونکہ سونے اور چاندی میں زکوٰہ واجب ہونے کے جو دلائل ہیں وہ عام ہیں،نیز عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث ہے کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور ان کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے کنگن تھے،اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا:کیا تم اس کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ اس نے جواب دیا:نہیں،آپ نے فرمایا:’’ کیا تم کو یہ اچھا لگے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تمہیں آگ کے دو کنگن پہنائے؟‘‘ چنانچہ اس نے وہیں دونوں کنگن نکال دئیے اور کہا:یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں۔ نیز ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ وہ سونے کے زیورات پہنتی تھیں،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ"کیا یہ کنز ہے؟"آپ نے فرمایا:"جو مال زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور پھر اس کی زکوٰۃ دے دی جائے تو وہ کنز نہیں۔"آپ نے ان سے یہ نہیں فرمایا کہ زیورات میں زکوٰۃ نہیں ہے۔