کتاب: تفہیم دین - صفحہ 179
کو اس کے وقت سے قبل ادا نہیں کر سکتے۔اسی طرح نمازوں کو جمع کرنے کے لئے بھی دلیل کی حاجت ہے۔یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کو جمع کیا ہے اگر سفر زوال شمس کے بعد کرتے تو ظہر کے وقت میں عصر بھی پڑھ لیتے تھے اسی طرح مغرب کے وقت میں عشاء ادا کر لیتے اور اگر سفر زوال سے پہلے کرتے تو ظہر کو لیٹ کرتے اور عصر کو اول وقت ادا کر لیتے۔اسی طرح مغرب کو لیٹ کرتے اور عشاء کو اول وقت میں پڑھ لیتے۔ملاحظہ ہو(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ 1220،1208،بیہقی 3/162،دارقطنی 1/393،ترمذی 553،المسند المستخرج لابی نعیم 2/294)اب رہا مقیم آدمی کے لئے نماز جمع کرنا اور اس کا طریقہ کار تو بسا اوقات مقیم آدمی بھی نماز جمع کر سکتا ہے(صحیح مسلم 705)اور مغرب و عشاء کو خوف و سفر کے بغیر جمع کر کے پڑھا ہے۔مسلم کی دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے مدینے میں ایسا کیا ہے یہاں پر مابہ النزاع بات یہ ہے کہ مقیم جمع تو کر سکتا ہے لیکن اس کی جمع کا طریقہ کار کیا ہے کیا مقیم ظہر کے ساتھ عصر اور مغرب کے ساتھ عشاء پڑھ سکتا ہے یا ظہر کو لیٹ کرے اور عصر کو اول وقت میں ادا کرے اسی طرح مغرب کو لیٹ کرے اور عشاء کو اول وقت میں پڑھے تو ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ مقیم ظہر کے ساتھ عصر اور مغرب کے ساتھ عشاء جمع نہیں کر سکتا۔اگر جمع کرنا چاہے تو ظہر کو لیٹ کرے اور عصر کو اول وقت میں پڑھے،اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں۔فریق اول کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ یہ مطلق جمع کا ذکر ہے اس کا طریقہ کار بیان نہیں ہوا۔امام بخاری نے بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کو ذکر کیا ہے کہ"ان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بالمدينة سبعا وثمانيا الظهر والعصر والمغرب والعشاء"(صحیح البخاری 543) بےشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں سات اور آٹھ رکعات جمع کر کے ادا کیں،یعنی ظہر و عصر اور مغرب و عشاء،اس حدیث پر امام بخاری نے کتاب مواقیت الصلوٰۃ میں یوں باب قائم کیا ہے،باب تاخير الظهر الى العصر یعنی ظہر کو عصر تک موخر کرنے کا بیان۔سید الفقہاء امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی طرف