کتاب: تفہیم دین - صفحہ 177
کی جماعت دوسرا امام کراتا ہے کیا یہ عمل قرآن و سنت کے مطابق ہے۔(سائل مذکور) جواب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے امام کے لئے جو شرائط ملتی ہیں ان میں یہ بات کہیں بھی موجود نہیں کہ تراویح اور وتر کے لئے ایک امام ہونا چاہیے کوئی بھی صحیح العقیدہ امام ہو اس کی اقتداء میں نماز ادا کر لیں۔دونوں کے لئے ایک امام بھی نماز ادا کر سکتا ہے اور الگ الگ امام بھی اگر نماز پڑھا دیں تو کوئی قباحت نہیں۔ خطبہ چھوٹا اور نماز لمبی والی حدیث کا مفہوم سوال:صحیح مسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ خطبہ چھوٹا اور نماز لمبی امام کے عقل مند ہونے کی نشانی ہے آپ یہ بتا دیں قرآن و حدیث کی روشنی میں اس سے کیا مراد ہے؟ اگر واقعی یہ مراد ہے کہ خطبہ چھوٹا اور نماز لمبی ہونی چاہیے تو اس صحیح حدیث پر عمل کب ہو گا۔(ابو عثمان ننکانہ) جواب:صحیح مسلم کتاب الجمعہ باب تخفیف الصلاۃ والخطبہ 869 میں عمار رضی اللہ عنہ کے الفاظ یوں ہیں"إن طول صلاة الرجل،وقصر خطبته،مئنة من فقهه فأطيلوا الصلاة وأقصروا الخطبة وإن من البيان سحرا"بلاشبہ آدمی کی نماز کا لمبا ہونا اور اس کے خطبے کا چھوٹا ہونا اس کی فقاہت کی علامت ہے تم نماز لمبی کرو اور خطبہ چھوٹا کرو بلاشبہ بعض بیان(موثر ہونے کے لحاظ سے)جادو(اثر)ہوتے ہیں۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ جمعہ کی نماز خطبہ جمعہ سے لمبی ہو بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ نماز جمعہ عام نمازوں سے لمبی ہو اور خطبہ جمعہ عام خطبات سے چھوٹا ہو۔بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل خطبہ بھی دیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے فجر کے بعد ظہر تک پھر ظہر سے عصر تک پھر عصر سے سورج غروب ہونے تک بھی خطبہ دیا جس میں آپ نے گزشتہ اور مستقبل کی باتوں کا ذکر فرمایا۔جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے ارشاد فرماتے تھے،ان دونوں کے درمیان آپ بیٹھتے تھے۔آپ(ان میں)قرآن پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے