کتاب: تفہیم دین - صفحہ 172
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور ان کی ماں یا خالہ کو نماز پڑھائی،انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:آپ نے مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا اور عورت کو ہمارے پیچھے کھڑا کر دیا۔(احمد،مسلم،ابوداؤد) قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ دونوں حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جب جماعت کے امام کے ساتھ ایک آدمی اور ایک عورت ہو تو آدمی دائیں جانب اور عورت ان دونوں کے پیچھے کھڑی ہو گی۔وہ مردوں کے ساتھ صف میں شامل نہیں ہو گی اور اس کا سبب فتنے سے ڈرنا ہے۔(نیل الاوطار 3/204) مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ امام کے ساتھ کوئی مرد ہو تو عورتیں پیچھے کھڑی ہو کر نماز پڑھ سکتی ہیں۔اب رہا صرف مرد امام ہو اور خواتین مقتدی تو کیا اس طرح نماز جائز و درست ہے۔نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عورتوں کو مرد کے پیچھے دیگر مروں کی موجودگی میں نماز پڑھنے میں کوئی نزاع نہیں ہے اختلاف اس بات پر ہے کہ صرف مرد عورتوں کو نماز پڑھائے جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح صحیح نہیں دلیل پیش کرنا اس کے ذمے ہے۔ "وليس فى صلاة النساء خلف الرجل معه الرجال نزاع و انما الخلاف فى فعليه الدليل"(الروضۃ الندیہ 1/119) جابر رضی اللہ عنہ کا اپنے گھر میں عورتوں کی امامت کروانا،پھر اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ مرد کی اقتداء میں عورتوں کی نماز درست ہے،جیسا کہ(مسند ابی یعلی 1795،2/197،198)بتحقیق مصطفیٰ عبدالقادر عطاء۔علامہ ہیثمی فرماتے ہیں اس کی سند حسن ہے(مجمع الزوائد 2/77)اسی طرح صحیح البخاری وغیرہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ذکوان کا انہیں جماعت کرانا بھی اس کا موید ہے۔مزید تفصیل کے لئے دیکھیں بدایۃ المجتہد 1/107 وغیرہ۔