کتاب: تفہیم دین - صفحہ 149
پہلی بات تو یہ ہے کہ سب محدثین نے اس حدیث کی صحت کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے،دوسری بات یہ ہے کہ اشارہ والی احادیث کے ثبوت سے حرکت دینے کی نفی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے اور صحابہ پیچھے کھڑے تھے۔فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ اجْلِسُوا ان کی طرف اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔(متفق علیہ) اس حدیث سے عقل مند آدمی یہ سمجھے گا کہ آپ کا یہ اشارہ صرف ہاتھ کو اٹھا دینا نہیں تھا جیسا کہ سلام کے جواب میں کرتے تھے۔ بلکہ یہ اشارہ ایسا تھا جس سے سمجھ آتی تھی کہ آپ بیٹھنے کا حکم دے رہے ہیں۔یہ اشارہ حرکت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ اس مثال سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اشارہ والی احادیث کو تحریک والی احادیث کے مخالف قرار دینا درست نہیں ہے۔ اسی طرح عبداللہ بن عمر والی روایت کہ یہ انگلی شیطان کے لئے لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اس حدیث کو حرکت نہ دینے کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس میں حرکت نہ دینے کی صراحت موجود ہی نہیں ہے جبکہ حرکت دینا وائل بن حجر کی حدیث سے ثابت ہو چکا ہے۔ اگر اس کو تسلیم کر لیں کہ اس میں حرکت نہ دینے کی صراحت ہے تو پھر صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ دونوں امر جائز ہیں جیسا کہ علامہ صنعانی نے سبل السلام میں اسے ترجیح دی ہے۔ لیکن پہلی بات زیادہ پختہ ہے کیونکہ وائل بن حجر ایک خاص اہتمام کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بیان کر رہے ہیں اور خاص کر تشہد کی حالت کا اور تشہد میں ایسی چیزیں انہوں نے بیان کی ہیں جو کسی نے بھی بیان نہیں کیں اس لئے ان کی