کتاب: تفہیم دین - صفحہ 139
مردہ سنت کہنا درست ہے؟ جب کہ سنت کبھی مردہ نہیں ہوتی اس پر عمل چھوڑ دیا جاتا ہے؟(محمد آصف چک نمبر 58/5R ہارون آباد ضلع بہاولنگر) جواب:ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور پچھلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کی قراءت کرتے تھے اور کبھی کبھی ہمیں ایک آیت سنا دیا کرتے تھے اور پہلی رکعت میں قراءت دوسری رکعت سے زیادہ کرتے تھے۔اسی طرح عصر اور صبح کی نماز میں بھی کرتے تھے۔(صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب يقرا في الاخريين بفاتحة الكتاب 776۔صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ باب القراۃ فی الظھر والعصر 154-155/451) اس صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کبھی کبھی ظہر کی نماز جو سری پڑھی جاتی ہے اس میں ایک آیت سنائی بھی جا سکتی ہے۔حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی لازمی نہیں ہے وگرنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہمیشہ سناتے۔کبھی کبھار کوئی آیت سنا دینا بالکل جائز ہے اور اس پر آج بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔سنت کے مردہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس پر لوگ عمل نہیں کر رہے۔جس سنت پر لوگ عمل نہ کر رہے ہوں اس کو زندہ کرنا چاہیے تاکہ معلوم ہو کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا۔البتہ جس کام پر شریعت نے شدت اختیار نہ کی ہو اس پر تشدد کر کے امت مسلمہ میں افتراق و انتشار کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ قصدا ترک کی ہوئی نمازوں کی قضاء سوال:اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز ترک کر دے پھر جب اللہ اسے توبہ کی توفیق دے تو کیا وہ اپنی ترک کی ہوئی نمازیں قضا کرے یا نہ کرے؟ جواب:جب کوئی آدمی جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے تو جب اسے اللہ نماز پڑھنے کی توفیق عطا کرے تو اسے ان چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا لازم نہیں کیونکہ قصدا نماز ترک کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور کافر آدمی حالت کفر میں ترک