کتاب: تفہیم دین - صفحہ 128
جو نماز کے منافی ہو اور ایک رکعت اکیلی نماز نہیں ہوتی اور اگر چوتھی رکعت میں تشہد کے لئے نہیں بیٹھا تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے اس لئے کہ بقدر تشہد بیٹھنا واجب ہے جس کی ادائیگی اس نے نہیں کی یہاں تک کہ پانچویں کو کھڑا ہو گیا۔مذکورہ بالا حدیث ان تمام باتوں کو رد کرتی ہے،اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پانچویں رکعت سے نہ واپس پلٹے ہیں اور نہ ہی ساتھ ایک اور رکعت ملا کر اسے جفت کیا ہے۔ (شرح صحیح مسلم 5/55 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت) امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اہل علم نے اس باب میں اختلاف کیا ہے اس حدیث کے ظاہری معنی کے مطابق محدثین کی ایک جماعت کا قول ہے جن میں سے علقمہ،حسن بصری،عطاء نخعی،زہری،مالک،اوزاعی،شافعی،احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔سفیان ثوری نے کہا ہے کہ اگر نمازی چوتھی رکعت میں نہیں بیٹھا تو مجھے زیادہ پسند ہے کہ وہ اعادہ کرے۔امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر چوتھی رکعت میں بقدر تشہد نہیں بیٹھا اور پانچویں کا سجدہ کر لیا تو اس کی نماز فاسد ہے اس پر لازم ہے کہ نماز نئے سرے سے ادا کرے۔اور اگر چوتھی میں بقدر تشہد بیٹھا ہے تو اس کی نماز ظہر مکمل ہو گئی اور پانچویں رکعت نفل ہے وہ اس کے ساتھ ایک اور رکعت ملا لے پھر تشہد بیٹھے اور سلام پھیر دے اور سہو کے دو سجدے کر لے۔تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔امام خطابی فرماتے ہیں سنت کی پیروی اولیٰ ہے،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی سند اتنی عمدہ ہے کہ اہل کوفہ کے ہاں اس سے زیادہ عمدہ کوئی سند نہیں۔جو شخص ظاہر حدیث کی طرف گیا ہے تو یہ صورت اس سے خالی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی رکعت میں تشہد کیا یا نہیں کیا۔ اگر آپ نے چوتھی رکعت میں تشہد نہیں کیا تو آپ نے نماز نئے سرے سے ادا نہیں کی بلکہ اس نماز کو شمار کیا اور سہو کے دو سجدے کئے،ہر دو صورتوں میں اہل کوفہ کی بات میں فساد و خرابی داخل ہو جاتی ہے۔(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں تحفۃ الاحوذی 2/425،426 بیروت،نیل الاوطار ابواب سجود السہو ص 569 ط جدید)