کتاب: تفہیم دین - صفحہ 119
سحری کے لیے اذان کہنا ثابت ہے؟ سوال:کیا سحری کے لیے اذان کہنا کسی حدیث سے ثابت ہے؟ جواب:سحری کے لیے اذان کہنا کئی ایک احادیث سے ثابت ہے،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ بلال رضی اللہ عنہ رات کو اذان دیتا ہے پس تم کھاؤ اور پیو،یہاں تک کہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دے۔فرمایا:ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے وہ اتنی دیر تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک انہیں نہ کہا جائے تم نے صبح کر دی۔"(صحیح البخاری 617،621،صحیح مسلم 1092) سحری کی اذان اور صبح صادق میں اتنا وقت ضرور ہونا چاہیے کہ آدمی آسانی سے سحری کھا سکے قیام کرنے والا واپس پلٹ آئے اور سویا ہوا بیدار ہو جائے اور روزے کی تیاری کر لے۔بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کھانے پینے سے منع نہ کرتی تھی کیونکہ وہ صبح کاذب میں ہوتی تھی۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح البخاری کی کتاب الصوم باب قدر کم بین السحور و صلاۃ الفجر میں یہ مسئلہ سمجھانے کے لیے یہ حدیث نقل کی ہے کہ "ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سحری کھائی پھر آپ نماز کے لیے اٹھے میں نے کہا:اذان اور سحری کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ تو انہوں نے کہا:پچاس آیات کی مقدار۔"(صحیح البخاری:1921) انس رضی اللہ عنہ کی ایک اور صحیح حدیث اس مسئلہ کی توضیح کے لیے کافی ہے۔فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے وقت فرمایا:اے انس ! میں روزے کا ارادہ رکھتا ہوں مجھے کوئی چیز کھلاؤ۔میں آپ کے پاس کھجور اور ایک پانی کا برتن لایا اور یہ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے بعد تھا۔پھر آپ نے فرمایا:اے انس ! کسی آدمی کو دیکھو جو میرے ساتھ مل کر کھائے۔میں نے زید بن ثابت رضی