کتاب: تفہیم دین - صفحہ 109
"اے ایمان والو! جب تم اٹھو نماز کے لیے پس دھو لو اپنے چہرے کو اور دھو لو اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اور مسح کرو اپنے سروں کا،پیروں کا ٹخنوں تک"آیت مذکورہ میں قرآن پاک میں پیروں کا مسح کرنا لکھا ہے جبکہ وضو(سنت طریقہ)پاؤں دھونے کا حکم ہے قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔(حفیظ احمد،راولپنڈی) جواب:قرآن حکیم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی تضاد نہیں ہے قرآن حکیم میں بھی پاؤں دھونے کا حکم ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی ہے۔قرآن حکیم میں سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 6 میں وضو کا حکم بیان کیا گیا آپ نے اسے آیت نمبر 82 لکھا ہے یہ غلط ہے پھر آپ نے ترجمہ بھی غلط تحریر کیا ہے جبکہ اس آیت کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ"اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو،سروں پر مسح کر لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لو۔" اس آیت کریمہ میں قابل غور یہ بات ہے کہ دو حکم ہیں ایک دھونے کا اور دوسرا مسح کرنے کا جن اعضاء کو دھونے کا حکم ہے ان پر زبر ہے جیسے وُجُوهَكُمْ،أَيْدِيَكُمْ اور أَرْجُلَكُمْ اور جس پر مسح کا حکم ہے اس کے نیچے زیر ہے جیسے بِرُءُوسِكُمْ۔ قرآن حکیم کی متواتر قراءت میں اور جتنے مطبوعہ نسخے ہیں ان میں أَرْجُلَكُمْ کی لام پر زبر ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاؤں پر مسح نہیں بلکہ پاؤں کے دھونے کا حکم ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بھی یہی ہے۔صحیح البخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ ان کی ایڑیوں کی خشکی چمک رہی ہے تو آپ نے بلند آواز سے دو یا تین مرتبہ فرمایا کہ ان ایڑیوں کے لئے آگ کا عذاب ہے۔یعنی ایڑیوں کو اچھی طرح سے دھو لو خشک نہ رہ جائیں۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کی حالت بیان کی ہے اس میں بھی پاؤں کے دھونے کا ذکر ہے،ملاحظہ ہو:المنتقی لابن الجارود،ابوداؤد،نسائی،دارمی،ابن خزیمہ،ابن حبان،مستدرک،احمد،مسند طیالسی،طبرانی صغیر،طحاوی،دارقطنی،بیہقی اور شرح السنہ میں صحیح سند کے ساتھ موجود