کتاب: تفہیم دین - صفحہ 106
جواب:مذکورہ اعضاء کے بال تراشنا جائز ہے،اگر اس سے بدن کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور اس کا مقصد عورتوں یا کافروں کی مشابہت نہ ہو کیونکہ اصل اباحت ہے اور کسی بھی مسلمان کے لئے بلا دلیل کسی چیز کو حرام ٹھہرا دینا جائز نہیں ہے اور جو کچھ پوچھا گیا ہے اس کی حرمت پر کوئی دلیل نہیں ہے،نیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ان چیزوں کے بارے میں خاموش رہنا ان کے مباح ہونے کی دلیل ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے مونچھیں کتروانے،ناخن کاٹنے،بغل کے بال اکھاڑنے اور شرمگاہ کے بال مونڈنے کو جائز ٹھہرایا ہے،اسی طرح مردوں کے لئے سر مونڈنے کو بھی مباح کیا ہے اور چہرے کےبالوں کو اکھیڑنے والی اور اکھڑوانے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے،نیز ہمیں داڑھی بڑھانے،اسے لمبی کرنے کا حکم دیا ہے،ان کے علاوہ دوسری چیزوں سے خاموشی اختیار کی ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول جس سے خاموش رہ جائیں وہ مباح ہوتا ہے اسے حرام ٹھہرانا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے،ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ اس کے راوی ہیں آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کئے ہیں جنہیں ضائع مت کرو کچھ حدود متعین کئے ہیں جنہیں پامال مت کرو،کچھ چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے جن کا ارتکاب نہ کرو اور تم پر رحم کرتے ہوئے کچھ چیزوں سے دانستہ سکوت اختیار کیا ہے ان کی کرید میں نہ پڑو۔"(دارقطنی وغیرہ) اسی کے قائل امام نووی بھی ہیں حدیث مذکور کی روشنی میں دیگر بہت سے علماء نے بھی ایسا ہی کہا ہے،اس معنی و مفہوم کی اور بھی احادیث و آثار مروی ہیں جن میں کچھ کو حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ نے جامع العلوم والحکم میں ابو ثعلبہ سے مروی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے نقل کیا ہے جو مزید معلومات حاصل کرنا چاہے وہ کتاب مذکورہ کی طرف مراجعت کرے۔واللہ اعلم