کتاب: تبلیغی و دیوبندی جماعت کا عقیدہ صوفیت - صفحہ 222
فرمایا ایک روز میں نے وضو کرنا چاہا کہ اسی دوران کچھ غنودگی سی طاری ہوگئی بعد میں میرے دل میں یہ القاء ہوا کہ یہ مدت غنوگی نوسوہزار برس کے برابر تھی کاتب الحروف(یعنی شاہ صاحب)کہتا ہے کہ طویل ترزمانوں کو ایک پل کی صورت میں پانا دراصل فنا کے حقیقت میں مل جانے سے پیدا ہو ا۔
…الخ صوفی کا یہ ملفوظ اس کے ہوش وحواس میں ہونے کی حالت میں نا ممکن ہے ایک پل ایک پل ہوتا ہے۔اس کو ہزار برس کہنا کسی مجنوں کی بڑکے سوا اور کیا ہے۔
صوفی کا نور جہنم کو ٹھنڈاکردے گا۔
ولی اس دنیا میں جلایا جاتا ہے اور تلوار سے قتل کیا جاتاہے مگر روز قیامت اس کا معاملہ اس کے برعکس ہوگا آگ بزبان حال پکاری گی۔بجز یا مومن فان نورک یطفی لھبی۔اے مومن جلدی گزرجا کہ تیرے نو ر کی کی لپیٹ میرے شعلے کی بھڑک کو ٹھنڈا کررہی ہے۔انفاس العارفین ص ۲۱۸ یعنی صوفی اپنے وحدت الوجود۔اناالحق۔میں خدا ہو ں کے عقیدے کی وجہ سے اسلامی سزاپاکردنیا میں قتل کیا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے اس عقیدے کی بنا پر حقیقی طور پر مرتد ہوجاتا ہے بلکہ وہ اس دعویٰ کے باوجود روز قیامت ایسے مقام پر ہوگا کہ جہنم پکارکر کہے گی اے مومن جلدی گزرجا کیونکہ تیرے نور نے میری حرارت کو ٹھنڈا کردیا ہے۔
کشف ذات