کتاب: تبلیغی و دیوبندی جماعت کا عقیدہ صوفیت - صفحہ 212
جائز ہونے کے قائل نہیں تھے اس سے رجوع کرکے جواز کا فتویٰ دیا امام ابویوسف کے اس عمل سے ثابت ہوا کہ کسی امام ومجتہد کی تقلید ہر مسئلہ میں نہیں ہے بلکہ جہاں قرآن و سنّت سے امام ومجتہد کا قول غلط ثابت ہو جائے وہاں اس قول کا چھوڑنا فرض ہے اور قرآن و سنّت پر عمل ضروری ہے۔
تمام ائمہ اہل سنّت کا اس پر اتفاق ہے تقلید کے فرض نہ ہونے کی زبردست دلیل امام محمد کے اس قول میں ہے۔وقداستبعد محمد رحمہ اللّٰه قول ابی حنیفۃ فی الکتاب لہذا وسماہ تحکما علی الناس من غیر حجۃ فقال ما اخذالناس بقول ابی حنیفۃ واصحابہ الابترکہم التحکم علی الناس فاذاکانواہم الذین یتحکمون علی الناس بغیر اثرولاقیاس لم یقلد واہذہ الاشیاء ولوجازالتقلید کان من مضی من ابی حنیفۃ مثل الحسن البصری وابراہیم النخعی احری ان یقلدواولم یحمد علی ماقال۔مبسوط سرخسی ج ۱۲ ص ۲۸۔یعنی امام محمد نے امام ابوحنیفہ کے مسئلہ وقف کو قرآن وسنّت سے بعید سمجھتے ہوئے ردکردیا اور کہایہ مسئلہ بغیر دلیل لوگوں پر مسلط کیا گیا ہے امام ابوحنفیہ اور اس کے اصحاب کے اقوال کو لوگوں نے اس لئے لیا تھا کہ وہ بغیر دلیل لوگوں پر زبردستی نہیں ٹھونسے جاتے تھے اور اگر یہی ائمہ بغیر دلیل لوگوں پر مسائل ٹھونسنا شروع کردیں۔تو ان کی ہرکسی مسئلے میں تقلید نہیں کی جائے گی اور اگر بغیر دلیل کسی امام و مجتہد کی تقلید فرض ہوتی تو ان ائمہ سے پہلے لوگوں کی تقلید ضروری ہوتی مثل حسن بصری اور ابراہیم نخعی کے۔مؤلف مبسوط کہتے ہیں امام محمد کی اس بات کو حنفی حلقوں میں پسند نہیں کیا