کتاب: تبلیغی و دیوبندی جماعت کا عقیدہ صوفیت - صفحہ 204
روایات زیادہ تر ضعیف ہوتی ہیں اور امام سیوطی نے مذکورہ رسالے میں انس رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے وہ حدیث یہ ہے الانبیاء لایترکون فی قبورہم بعد اربعین لیلۃ ولکن یصلون بین ید ی اللّٰه حتی ینفخ فی الصور۔یعنی انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں چالیس روزکے بعد نہیں رہتے وہ اللہ تعالیٰ کے روبرو نمازیں پڑھتے رہتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے اگر اس کو دلیل بنایا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ انبیاء اپنی قبروں میں نہیں ہیں لہذا قبروں کے اندر انبیاء کی زندگی اس روایت کے حساب سے کالعدم ہوگی۔
مفتی عبدالشکور صاحب عقائد علماء دیوبند میں لکھتے ہیں علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی نے فتح الملہم میں لکھا ہے۔ان النبی حی کما تقرروانہ صلی اللّٰه علیہ وسلم یصلی فی قبرہ باذان واقامۃ۔المہند ۱۶۱ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور اپنی قبر میں اذان و اقامت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔مفتی عبدالشکور صاحب فرماتے ہیں علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی فیض الباری ج ۱ ص ۱۸۳ میں اس طرح لکھا ہے اور اذان و اقامت کے ثبوت میں مسند دارمی کا حوالہ دیا ہے اور قبروں میں قرآن پڑھے جانے کے ثبوت میں سنن ترمذی کا حوالہ دیا ہے۔
مسند دارمی کی جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے غالبا اس سے مراد وہ حدیث ہے جس میں ہے تین دن تک مسجد نبوی میں اذان و اقامت نہیں ہوئی جب یزید کی فوج نے مدینہ پر حملہ کیا تھا سعید بن مسیب مسجد نبوی میں تھے ان کو نماز کے اوقات کا پتہ نہیں چلتا تھا سوائے اس کے کہ نماز کے اوقات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ سے گنگناہٹ کی آواز آتی تھیں وہ اس آواز کو سن کر نماز پڑھا کرتے یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اس کی سند منقطع ہے سعید بن