کتاب: تبلیغی و دیوبندی جماعت کا عقیدہ صوفیت - صفحہ 203
وکیف تعرض علیک صلا تناوقد ارمت یعنی بلیت فقال ان اللّٰه حرم علی الارض ان تاکل اجسادالانبیاء۔یعنی تمہارے افضل دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے اس دن میں میرے اوپر زیادہ سے زیادہ درودپڑھا ہوا درود مجھ تک پہنچایاجاتا ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارا دورد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا حالانکہ وفات کے بعد آپ کا بدن وجسم پوشیدہ ہو کر مٹی میں مل جائے گا آپ نے فرمایا ہمارے(انبیاء کے)بدن مٹی پر حرام کر دئیے گئے ہیں وہ ہمارے جسموں کو نہیں کھاسکتی۔
یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انبیاء کے جسموں میں روح نہیں ہے کیونکہ ان جسموں میں اگر روح ہوتی تو ان کو مٹی کے کھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور مٹی پر انبیاء کے جسموں کے کھانے کو حرام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جسم مردہ ہیں اور چونکہ ہر مردہ جسم کو مٹی کھا جاتی ہے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وضاحت فرمائی کہ باوجود اس کے کہ ان جسموں میں روح نہیں مٹی ان کو نہیں کھاسکتی اور اگر انبیاء کے جسموں میں روح ہوتی اور وہ قبر میں ان جسموں کے ساتھ زندہ ہوتے تو صحابہ کے سوال کا جواب یہ نہ ہوتا جو حدیث میں مذکور ہے بلکہ اس کا جواب یہ ہوتا کہ ہم انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں یعنی ہمارے جسم مردہ نہیں ہوتے۔اور امام سیوطی نے مذکورہ رسالے میں یہ حدیث بھی ذکر کی ہے۔الانبیاء احیاء فی قبورہم یصلون،رواہ ابویعلی فی مسند ج ۶ ص ۱۴۷ یعنی انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں مگر یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔
اس میں امام ابو یعلی کے استاذ ابوجہم ازرق بن علی غریب روایات بیان کرتا ہے اور غریب