کتاب: تبلیغی و دیوبندی جماعت کا عقیدہ صوفیت - صفحہ 202
باہر نکال کر دنیا کے سامنے لائیے ان کو جسم وروح کے ساتھ سب لوگ یقین کرلیں گے کہ واقعی وہ زندہ ہیں۔اور پھر اگر وہ اسی قبر میں جسم و روح کے ساتھ زندہ ہیں تو ان کی جائداد تقسیم نہیں کرنی چاہئے اور ان کی بیویوں کو دوسروں کے ساتھ نہیں بیاہ دینا چاہئیے۔کیونکہ اس قبر میں زندہ آدمی کی مثال اس زندہ انسان کی مثال ہے جوکسی بند گھر میں سویا ہوا ہو ایسے آدمی کی نہ جائداد تقسیم کی جاتی ہے اور نہ اس کی بیوی کا دوسری جگہ نکاح
کیا جاتا ہے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ قبر جس میں ہم مردوں کو دفن کرآتے ہیں اسی دنیا کی چیز ہے یعنی یہ قبر اسی دنیا میں ہے اور انسان مرنے کے بعد اسی دنیا میں نہیں کسی دوسری دنیا میں ہوتا ہے جس پر صرف ایمان لایا جاسکتا ہے اس کا مقام و قوع انسان کی آنکھوں سے اوجھل ہے یہ دنیاوی آنکھ اس کا ادراک نہیں کرسکتی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ومن ورائہم بزرخ الی یوم یبعثون﴾(المومنون)ان کے آگے ایک پردہ حائل ہے جس کے اس پار تمہاری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں اور یہ پردہ تا قیامت قائم رہے گا اسی بزرخ سے مراد قبر کا یہ گڑھا نہیں جس میں انسان کا جسم رکھا ہوتا ہے یہ تو ہر وقت انسان کے سامنے ہے جب کوئی چاہے قبر کھود کر اس بدن و جسم کو دیکھ سکتا ہے اور بزرخ کے اس پار کسی صورت میں بھی انسان کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔
علامہ سیوطی نے اپنے رسالہ انبیاء لاذکیا کے ص ۵ میں ابوداود اور بیہقی کے حوالے سے اوس بن اوس الثقفی کی حدیث نقل کی ہے وہ حدیث یہ ہے۔من افضل ایامکم یوم الجمعۃ فاکثرواعلٰی الصلاۃ فیہ فان صلاتکم تعرض علی قالوا یا رسول اللّٰه