کتاب: تبلیغی و دیوبندی جماعت کا عقیدہ صوفیت - صفحہ 198
بات کی تصریح کی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں علامہ تقی الدین سبکی نے فرمایا ہے انبیاء وشہدا ء کی قبر میں حیات ایسی ہے جیسی دنیا میں تھی اور موسیٰٰ علیہ السلام کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے کیونکہ نماز زندہ جسم کو چاہتی ہے۔پس اس سے ثابت ہوا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی ہے اور اس میں برزخی بھی ہے کہ عالم برزخ میں حاصل ہے اور ہمارے شیخ مولانا محمد قاسم صاحب کا اس بحث میں ایک مستقل رسالہ بھی ہے اس کا نام آب حیات ہے۔المہند ص ۱۵۹۔ دنیوی حیات سے اکابر دیو بند کی مراد یہ ہے کہ یہ حیات اس دینوی جسم مبارک میں ہے اور اس دنیوی حیات کے اثبات کا مطلب یہ ہے کہ قبر مبارک میں اسی دنیا والے جسم اطہر کے ساتھ آپ کی روح اقدس کا ایسا تعلق ہے جس کی وجہ سے اس بدن اطہر میں حیات اور زندگی حاصل ہے اور یہ صرف روح مبارک کی زندگی نہیں ہے۔چونکہ دنیوی حیات کی طرح انبیاء علیہ السلام اس قبر شریف والی حیات میں بھی ادراک اور علم اور شعور حاصل ہوتا ہے اس لئے ان اہم امور کے حاصل ہونے کی وجہ سے اس حیات کو بھی دنیوی حیات کہا جاتا ہے۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام نے آپ کے زندہ نہ ہونے پر اتفاق کرلیا تھا امت محمدیہ کا سب سے پہلا اجماع تھا جو آپ کی وفات پر قائم ہوا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا تھا جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ ہونے اور فوت نہ ہونے پر یقین رکھتا ہے وہ ان کو معبود سمجھ کر ان کی عبادت کرتا ہے ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے جو ان کوفوت نہ جان کر ان کی عبادت کرتے ہیں ان کا معبود فوت ہوچکا ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھاکہ جو آپ کو اب بھی