کتاب: تبلیغی و دیوبندی جماعت کا عقیدہ صوفیت - صفحہ 18
شخص نے وعظ کہلوایا تو …بیٹھتے ہی ان کے منہ سے جو پہلا لفظ نکلے گا وہ ہوگا۔انا الحق۔میں خدا ہو ں(ص ۲۱۷)۔سوال یہ ہے کہ مولوی اشرف علی صاحب کے منہ سے اس کلمے کے نکلنے کی وجہ کیاہے ؟ اگر یہ کلمہ ان کے نزدیک دہریت و زندیقیت و الحاد ہوتا تو اس کے نکلنے کا ہر گز امکان نہ ہوتا۔اس لئے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انسان کا حق یعنی خدا ہونا اشرف علی صاحب تھانوی اورا ن کی تعلیم کے عام کرنے کے لئے بنائی گئی جماعت تبلیغ کے نزدیک حق و صواب ہے چونکہ اس کا عوام الناس سے چھپانا فر ض ہے اس لئے عام حالات میں مولوی اشرف علی صاحب کے منہ سے اس کا نکلنا ممکن نہ تھا لیکن اس وقت جب ان کو وعظ کے لئے کہا جارہا تھا حالت وجد ان پر طاری تھی اس وقت ان کے منہ سے حق و سچ کلمہ کے نکلنے کا امکان تھا اس لئے اس حقیقت پر پردہ رکھنے کے لئے ان سے وعظ کہلوانا موقوف کردیا گیا
حاجی امداد اللہ صاحب نے رسالہ وحدۃ الوجود۔کلیات امدادیہ ص ۲۲۱۔میں یہ بھی لکھا ہے کہ وحدۃ الوجود کی مثال اس آہنی سلاخ کی ہے جس کو آگ میں ڈال کر گرم کیا گیا ہو اور بظاہر وہ آگ بن گئی ہو اور اسی اثناء میں وہ نعرہ لگائے کہ میں آگ ہوں حالانکہ وہ فی الحقیقت سلاخ ہی ہے لیکن اس کا اپنے آپ کو آگ کہنا بھی کوئی غلط نہیں ہے۔میں کہتا ہوں حقیقت میں یہ مثال وحدۃ الشہود کی ہے وحدۃ الوجود کی نہیں،وحدۃ الوجود کی صحیح مثال وہ ہے جو حاجی صاحب نے درخت اور اس کے بیج سے دی ہے،کیونکہ درخت بن جانے کے بعد بیج خود بخود کالعدم ہوجاتا ہے کسی شکل میں باقی نہیں رہتا۔