کتاب: تبلیغی و دیوبندی جماعت کا عقیدہ صوفیت - صفحہ 16
کی مثال یہ ہے کہ جیسا کہ پانی میں شکر ملا دی جائے اور یہ شکر پانی میں گھل کر پانی ہوجائے شکر کا وجود باقی نہ رہے۔اس مثال میں مولوی اشرف علی صاحب نے حلاج کا دفاع کیا ہے کہ وہ حلول کا قائل نہیں تھا،ظہور کا قائل تھا۔مگر حلاج کا اپنا قول جو خود اشرف علی صاحب نے ہی نقل کیا ہے کہ میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے۔اشرف علی صاحب کے قول کی تردید کرتا ہے۔کیونکہ اس سے ظاہر ہے کہ وہ رب تعالیٰ کو اپنے اندر موجود مانتا تھا اسی لئے وہ کہتا ہے میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے،تواس کا باطن خدا ہوا۔ حاجی امداد اللہ اور ان کے مریدوں کے عقیدے کی اس بات سے وضاحت ہوتی ہے جو انہوں نے اپنے رسالے ’’وحد ت الوجود ‘‘میں لکھا ہے انہوں نے لکھا ہے وحدت الوجود کی مثال یہ ہے جیسے کسی بڑے درخت کا بیج ہوتا ہے اس بیج کے اندر مکمل طور پر وہ درخت موجود ہوتا ہے مگر نظر نہیں آتا جب اس کو بویا جاتا ہے تو اس سے تمام ٹہنیاں ایسے ہی ظاہر ہوجاتی ہے جب درخت اگتا ہے تو درخت ہی نظر آتا ہے اس کا اصل بیج فناہوکر گم ہوجاتا ہے اسی طرح اس کائنات کی اصل اللہ کی ذات ہے جب اللہ نے کائنات بنائی تو وہ اس کائنات میں مخفی ہوگیا اب یہی مخلوق باقی ہے اس کا اصل ظاہر میں موجود نہیں یعنی اللہ کی ذات اس مخلوق سے باہر موجود نہیں۔یہ ہے عقیدہ وحدۃ الوجود۔درخت اور اس کے بیج کی مثال سے اس کا ئنات کا حقیقی وجود اور نعوذ باللہ رب تعالیٰ کا اس میں فنا ہوجانا ثابت ہوتا ہے۔یہ دہریوں کا عقیدہ ہے جو اس کائنات میں رب کا وجود نہیں مانتے اور یہی عقیدہ فرعون کا تھا۔شیخ ابن عربی صوفی نے فرعون کو مومن لکھا ہے۔(فصوص الحکم اردو ص ۴۰۰)اس کی دلیل اس نے یہ دی ہے