کتاب: تبلیغی و دیوبندی جماعت کا عقیدہ صوفیت - صفحہ 15
کا مظہر ہے۔یعنی اللہ کی ایک شکل و صورت ہے،وہ غیر اللہ ہوتا تو کبھی مسجود الیہ نہ ہوتا۔اور دیوبندیہ و بریلویہ کے پیرو مرشد نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ابلیس بھی اللہ کا مظہر ہے یعنی مظہر مضل ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں ہیں ایک ہادی دوسری مضل۔یعنی ہدایت دینے والا اور گمراہ کرنے والا جیسا کہ قرآن میں ہے یضل بہ کثیرا ویھدی بہ کثیرا(البقرۃ:)اس لئے ابلیس اللہ کی صفت مضل کا مظہر ہے اور آدم اس کی صفت ہادی کا مظہر ہے۔اس لئے نہ آدم اللہ کا غیر ہے اور نہ ابلیس اس کا غیر ہے۔اس کی وضاحت اس کتاب میں اس واقعہ میں آپ کو ملے گی جو اشرف علی تھانوی صاحب کے کلام سے ہم نے درج کی ہے،یعنی وہ واقعہ جس میں بیان ہوا ہے کہ ایک آدمی مست ہاتھی پر سوارہو کر آرہا تھا اور یہ اعلان کرتا جارہا تھا کہ میرا ہاتھی میرے قابو میں نہیں ہے اس سے بچو۔ایک صوفی نے یہ سن کر کہا:خدا کو خدا سے کیا ڈر،وہ بھی خدا ہے میں بھی خدا ہو ں تو ڈر کس بات کا۔وہ ہاتھی کے قریب گیا ہاتھی نے اس کو مارڈالا۔یہ سن کر اس صوفی کے مرشد نے فرمایا:یہ ہاتھی اللہ کا مظہرمضل تھا اور اس پر سوار آدمی اللہ کا مظہر ہادی تھا،اس صوفی نے مظہر مضل کو دیکھا،مظہر ہادی کو نہ دیکھا اس لئے ہلاک ہوا۔یعنی اس مرشد نے اپنے صوفی مرید کی اس بات کو غلط نہیں کہا کہ یہ ہاتھی خدا تھا اور وہ صوفی بھی خدا تھا:بلکہ ہاتھی پر سوار آدمی کو بھی خدا کہا یہ تینوں خدا تھے۔نعوذ باللّٰه من الضلال۔ دیو بندیوں کے حکیم الامت سے سوال ہواکہ جناب حلول و ظہور میں کیا فرق ہے ؟ فرمایا جیسے انسان آئینہ دیکھتا ہے،آئینہ میں نظر آنے والی اس کی صورت اس کے ظہور کی مثال ہے،حلول