کتاب: تبلیغی و دیوبندی جماعت کا عقیدہ صوفیت - صفحہ 108
قمقموں میں یہ بجلی پہنچتی ہے ان ہی کے مناسب رنگ وہیئت اختیار کر لیتی ہے رہایہ مسئلہ کہ روح جو ہر مجرد ہے جیسا کہ اکثر حکماء قدیم اور صوفیاء کا مذہب ہے یا جسم نورانی لطیف جیسا کہ جمہور اہل حدیث وغیرہ کی رائے ہے اس میں میرے نزدیک قول فیصل وہی ہے جو بقیۃ السلف بحر العلوم سید انور شاہ صاحب نے فرمایاکہ بالفاظ عارف یہاں تین چیزیں ہیں اول وہ جواہر جن میں مادہ اور کمیت دونوں ہوں جیسے ہمارے ابدان مادیہ،دوم وہ جواہرجن میں مادہ نہیں صرف کمیت ہے جنھیں صوفیاء اجسام مثالیہ کہتے ہیں سوم و ہ جو مادہ اور کمیت دونوں سے خالی ہوں جن کو صوفیاء ارواح یا حکماء جواہر مجردکے نام سے پکارتے ہیں جمہور اہل شرع جسے روح کہتے ہیں وہ صوفیاء کے نزدیک بدن مثالی سے موسوم ہے جو بدن میں حلول کرتا ہے اور بدن مادی کی طرح آنکھ ناک ہاتھ وغیرہ اعضاء رکھتا ہے یہ روح کبھی بدن سے جدا ہوجاتی ہے اس جدائی کی حالت میں بھی ایک طرح کا مجھول الکیفیت علاقہ بدن کے ساتھ قائم رکھتی ہے گویا علی رضی اللہ عنہ کے قول کے موافق جو بغوی نے(اللّٰه یتوفی الانفس حین موتھا)کی تفسیر میں نقل کیا ہے اس وقت روح خود علیحدہ رہتی ہے مگر اس کی شعاع جسدمیں پہنچ کر بقائے حیات کا سبب بنتی ہے جیسے آفتاب لاکھوں میلوں سے بذریعہ شعاعوں کے زمین کو گرم رکھتا ہے میں یہی سمجھتا ہوں کہ ہر مخلوق کو اس کی استعداد کے موافق قوی یا ضعیف زندگی ملی ہے یعنی جس کام کے لئے وہ چیز پیدا کی گئی ڈھانچہ تیار کرکے اس کو حکم دینا’’کن‘‘ اس کام میں لگ جا بس یہی اس کی روح حیات ہے جب تک اور جس حد تک یہ اپنی غرض ایجاد کو پورا کرے گی اسی حد تک زندہ سمجھی جائے گی اور جس قدر اس سے بعید ہو کر