کتاب: تبلیغی و دیوبندی جماعت کا عقیدہ صوفیت - صفحہ 106
الخلق والا مرتبارک اللّٰه رب العالمین﴾(الاعراف:۵۴)خبر دار اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم چلانا یہاں خدا کے دومد ہیں جو علیحدہ علیحدہ ہیں ایک خلق دوسرا امر دونوں میں کیا فرق ہے اس کو سیاق آیات سے سمجھتے ہیں۔پہلے فرمایا(ان ربکم اللّٰه الذی خلق السموات والارض فی ستۃ ایام)یہ خلق ہوا درمیان میں(ثم استوی علی العرش)کا ذکرکیا جو شان حکمرانی کو ظاہر کرتا ہے فرمایا(یغشی اللیل النھار یطلبہ حثیثا والشمس والقمر والنجوم مسخرات بامرہ)یعنی ان مخلوقات کو معین و محکم نظام پر چلاتے رہنا جسے تدبیر و تصریف کہہ سکتے ہیں یہ امر ہوا ﴿ اللّٰه الذی خلق سبع سموٰت ومن الارض مثلہن یتنزل لامربینھن ﴾(طلاق:۱۲)گویا دنیا کی مثال ایک بڑے کارخانے کی سمجھو جس میں مختلف قسم کی مشینیں لگی ہوں کوئی کپڑا بن رہی ہے کوئی آٹا پیس رہی ہے کسی سے پنکھے چل رہے ہیں(وغیر ذالک)ہر ایک مشین میں بہت کل پرزے ہیں جو مشین کی غرض وغایت کا لحاظ کرکے ایک معین انداز ے سے مشین فٹ ہو کر کھڑی ہوجاتی ہیں تب بجلی کے خزانے سے ہر مشین کی طرف جدا جدا راستے سے کرنٹ چھوڑدیا جاتا ہے آن واحد میں ساکن و خاموش مشین اپنی اپنی ساخت کے موافق گھومنے اور کام کرنے لگ جاتی ہے بجلی ہر مشین اور ہرپرزہ کو اس کی مخصوص ساخت اور غرض کے مطابق گھماتی ہے حتی کہ جو قلیل وکثیر کہر بائیہ روشنی کے لیمپوں اور قمقموں میں پہنچتی ہے وہاں پہنچ کر ان ہی قمقوں کی ہیئت اور رنگ اختیار کرلیتی ہے اس مثال میں یہ بات واضح ہوگئی کہ مشین کا ڈھانچہ تیار کرنا اس کے کل پرزوں کا ٹھیک اندازہ پر رکھنا پھر فٹ کرنا ایک سلسلہ کے کام ہیں