کتاب: تبرکات - صفحہ 98
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتوں جیسے جوتے بنائے،جن کے دو تسمے تھے۔‘‘
(تاریخ دِمَشق : 27/362)
لیکن یہ روایت جھوٹی ہے۔
1. ابو طالب عبداللہ بن حسن بن احمد بن حسن بن مثنی بصری کی توثیق نہیں ملی۔
2. ابو بکر محمد بن عدی بن علی بن عدی بن زحر منقری بصری کی توثیق درکار ہے۔
3. ابو عثمان سعید بن حسن بن علی تستری کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
4. احمد بن محمد فزاری کا تعین اور توثیق مطلوب ہے۔
اس سند میں نامعلوم اور مجہول راوی ہیں ، اس سے حجت پکڑنا جائز نہیں ۔
یہ تھی آثار ِنبویہ کی شبیہات کے جواز پر بعض لوگوں کے دلائل، جن کا جائزہ آپ کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔اگر کسی کے پاس اس کے علاوہ کچھ ہے تو پیش کرے، ورنہ مان لے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نعلین کی تصویر بنا کر اور اس کے جھوٹے فوائد بیان کرنا دین میں دخل اندازی ہے۔
قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر یا حجرئہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شبیہ بنا کر اس کی تکریم و تعظیم کرنا قبیح بدعت ہے، اس کا موجد کون تھا؟ کچھ معلوم نہیں ، کسی ثقہ مسلمان سے ایسا کرنا قطعاً ثابت نہیں ۔
مولانااحمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں :
’’رہا نقشہ روضۂ مبارکہ، اس کے جواز میں اصلاً مجال سخن و جائے دم زدن نہیں ، جس طرح ان تصویروں کی حرمت یقینی ہے،یوں ہی اس کا جواز اجماعی ہے۔‘‘
(فتاویٔ رضویہ : 21/439)