کتاب: تبرکات - صفحہ 95
ضرورت نہیں ،البتہ تبرکات کے اصلی ہونے کے دعویدار پر ثبوت پیش کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا تبرکات کو نکاح یا کسی کے حلالی و حرامی ہونے کے دعوے پر قیاس کرنا خطاہے۔ ایک جھوٹے نقشِ پا کا قصہ : حالیہ واقعہ ہے، موضع ’’دھرابی‘‘ ضلع چکوال میں ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ میرے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم کا نشان باقی ہے۔ قبوری لوگ قافلوں کی صورت میں وہاں پہنچے،لیکن بہت جلد اس جھوٹے دعویٰ کی قلعی کھل گئی۔ ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ تبرکات کا معاملہ دین اور عقیدہ کا مسئلہ ہے،اسے جھوٹے لوگوں کے رحم و کرم پر مت چھوڑا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آثارِ نبوی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور ڈر مد نظر رکھنا چاہیے،احتیاط کا دامن نہ چھوڑا جائے۔اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا مسئلہ بڑا سخت ہے،یہ جھوٹے دعوے روزِ قیامت وبالِ جان بن جائیں گے۔ تبرکات نبویہ کی تشبیہ : آثارِ نبویہ سے تبرک حاصل کرنا حق ہے،مگر تبرک اس طریقہ سے حاصل کیا جائے، جیسے صحابہ کرام،تابعین عظام اور تبع تابعین حاصل کیا کرتے تھے۔آج کل بعض لوگوں نے تبرکات کی شبیہات بنا لی ہیں ۔ اسی طرح نعلین کریمین کی فرضی اور مصنوعی تصاویر جھنڈیوں کی زینت بنتی ہیں ۔ اولاً تو جن نعلین کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے،وہ نسبت ثابت ہی نہیں ۔ ثانیاًآثار ِنبویہ کی فرضی تصاویر اور تشبیہ سے تبرک حاصل کرنا بدعت ہے۔صحابہ کرام،تابعین عظام اور تبع تابعین اس سے ناواقف تھے۔خیرالقرون میں اس کا کوئی