کتاب: تبرکات - صفحہ 94
گواہ نہیں ، اگر کوئی ہو بھی تو وہ صرف عقد نکاح کی گواہی دے گا، یہ کیسے معلوم ہوا کہ جناب کی ولادت شریف ان کے ہی قطرے سے ہے،رُک کر بولے کہ جناب مسلمان کہتے ہیں کہ میں ان کا بیٹا ہوں اور مسلمانوں کی گواہی معتبر ہے، ہم نے کہا: جب مسلمان کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ کا بال شریف ہے اور مسلمانوں کی گواہی معتبر ہے، شرمندہ ہو گئے۔‘‘
(جاء الحق : 1/378)
جناب نعیمی صاحب یہاں خلط مبحث سے کام لے رہے ہیں ۔بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی چیز کی نسبت کی ہو رہی ہے،جس کے بارے میں بڑی وضاحت و صراحت سے یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی نسبت جہنم میں جانے کا باعث ہے۔اس کے برعکس شریعت ہی نے یہ بتایا ہے کہ اگر کسی کے گھر کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے،تو وہ اسی کی طرف منسوب ہو گا۔اگر کوئی شخص یہ بھی دعویٰ کر دے کہ میں نے اس کی ماں کے ساتھ زنا کیا تھا اور یہ میرا بچہ ہے،تو بھی اس کا دعویٰ مسترد کر دیا جائے گا۔یہ بچہ تو اسی کا ہو گا،جس کے بستر پر پیدا ہوا ہے،جبکہ زنا کا دعویٰ کرنے والے کو زنا کی سزا دی جائے گی۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاھِرِ الْحَجَرُ‘ ۔
’’بچہ بستر(والے)کا ہی ہو گا،البتہ (شادی شدہ)زانی کے لیے(زنا کی سزا کے طور پر)پتھر ہیں ۔‘‘
(صحیح البخاري : 6749، صحیح مسلم : 1457)
اگر کوئی کہے کہ فلاں شخص فلاں کا بیٹا نہیں ، تو اس نے اس پر حرامی ہونے کا دعویٰ کیا ہے،اس دعویٰ پر اسے چار گواہ پیش کرنا ہوں گے،ورنہ اسے کوڑے لگائے جائیں گے،مگر تبرکات کے متعلق کوئی دعویٰ کر دے کہ یہ تبرکات اصلی نہیں تو اس کو گواہ پیش کرنے کی