کتاب: تبرکات - صفحہ 93
رہی یادگاروں کی بات،تو جن یادگاروں کے متعلق واقعات قرآن و حدیث میں موجود ہیں یا وہ تواتر کے ساتھ ثابت ہیں ،ان کے متعلق کوئی شبہ نہیں ہو سکتا، لیکن جو یادگاریں بغیر ثبوت کے کسی کی طرف منسوب ہیں ،وہ بھی مشکوک ہی ہوں گی۔ موجودہ دَور کے جعلی تبرکات بھی تواتر سے ثابت نہیں ،لہٰذا انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بہت بڑی جسارت ہے۔ باقی جو نکاح کی بات کی گئی ہے،تو شریعت نے اس میں گواہوں کی موجودگی اسی لیے ضروری اور لازمی شرط کے طور پر رکھی ہے کہ اس کے ثبوت میں کوئی دقت نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ نکاح علی الاعلان کیا جاتا ہے اور دو خاص گواہوں کے علاوہ باقی سارے لوگ بھی اس نکاح کے گواہ ہی ہوتے ہیں ۔دو لوگوں کو خاص طور پر گواہ اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اگر اس بارے میں کوئی قانونی پیچیدگی ہوتی ہے،تو یہ لوگ عدالت کو اس حوالے سے مطمئن کر سکیں ۔ جب پورے علاقے والے لوگ نکاح کے گواہ ہوتے ہیں ،تو موجودہ اور آنے والی تمام نسلوں کو بھی یہ گواہی پہنچتی جاتی ہے۔اگر کسی شخص کے نکاح کے دونوں گواہ فوت ہو چکے ہوں ، تو کیا عدالت میں اس کے نکاح کا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکے گا؟ اس کے برعکس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب تبرکات کو ثابت کرنا ممکن ہی نہیں ۔محدثین اور اہل علم نے اس کے لیے تواتر یا سند ِصحیح کی شرط لگائی ہے اور موجودہ تبرکات کو خود احناف اہل علم نے بھی مسترد کر دیا ہے،جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں ۔ نعیمی صاحب ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ان سے پوچھا گیا کہ جناب کا اسم شریف کیا ہے؟فرمانے لگے: عبدالرحمن، والد مہربان کا اسم گرامی کیا ہے؟ فرمایا کہ عبد الرحیم، ہم نے پوچھا کہ اس کا ثبوت کیا ہے؟کہ آپ عبدالرحیم صاحب کے فرزند ہیں ؟ اولاً تو اس نکاح کے