کتاب: تبرکات - صفحہ 92
نصیبی اور محرومی ہے۔ جناب احمد یار خان نعیمی گجراتی صاحب لکھتے ہیں : ’’تبرکات کے ثبوت کے لیے مسلمانوں میں یہ مشہور ہونا کہ یہ حضور کے تبرکات ہیں ، کافی ہے۔‘‘ (جاء الحق: 1/376) نکاح و ولدیت کا ثبوت اور تبرکات : جناب احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں : ’’ہم کہتے ہیں کہ ہم فلاں کے بیٹے فلاں کے پوتے ہیں ، اس کا ثبوت نہ قرآن میں ہے، نہ حدیث سے،نہ ہماری والدہ کے نکاح کے گواہ موجود،مگر مسلمانوں میں اس کی شہرت ہے،اتنا ہی کافی ہے، اسی طرح یادگاروں کے ثبوت کے لیے صرف شہرت معتبر ہے۔‘‘ (جاء الحق: 1/376) لیکن ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کا معاملہ عام دعوؤں سے مختلف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی چیز کو منسوب کرنا دلیل و ثبوت کا متقاضی اور احتیاط طلب معاملہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی اثر کو منسوب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک فعل کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جا رہی ہے۔اس کی مثال یوں لیں کہ کسی جوتے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جوتا پہنا کرتے تھے۔یوں یہ ایک حدیث ہے اور کسی جھوٹی حدیث کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کا انجام یہ ہے : ’ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا؛ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ‘ ۔ ’’جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ منسوب کیا،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے۔‘‘ (صحیح البخاري : 1291، صحیح مسلم : 3)