کتاب: تبرکات - صفحہ 91
ایمان ہے، جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو۔جو شخص سچا مسلمان نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ اسے آثارِ نبویہ سے تبرک میں کوئی خیر نہیں دیتا۔اسی طرح تبرک حاصل کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ آثار بھی ہوں ، جن سے وہ تبرک لیتا ہو۔مگر ہمیں معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال، لباس اور دیگر آثار مفقود ہو چکے ہیں ۔اب کسی کے بس کی بات نہیں کہ وہ انہیں یقینی اور قطعی طور پر ثابت کر سکے۔ جب معاملہ یہ ہے تو ہمارے زمانے میں آثار ِنبویہ سے تبرک لینا بے جا ہے۔یہ محض ایک خیالی معاملہ ہے،جس پر لمبی گفتگو کرنا نامناسب ہے۔‘‘ (التَّوَسُّل وأنواعہ و أحکامہ، ص 144، وفي نسخۃ، ص 162-161) مولانا احمد رضا خان صاحب کا مؤقف : اہل علم کی رَوَش کے خلاف مولانااحمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں : ’’ایسی جگہ ثبوت یقینی باسند محدثانہ کی اصلاً حاجت نہیں ،اس کی تحقیق و تنقیح کے پیچھے پڑنا اور بغیر اس کے تعظیم و تبرک سے باز رہنا سخت محرومی کم نصیبی ہے۔ائمہ دین نے صرف حضور اقدس کے نام سے اُس شے کا معروف ہونا کافی سمجھا ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ : 21/412) نہ معلوم وہ کون سے ائمہ دین ہیں ،جوآثار ِنبویہ کے لیے سند کو بنیاد نہیں بناتے، بلکہ شہرت پر اکتفا کر لیتے ہیں ، ہم ثبوتوں کے ساتھ بیان کر چکے ہیں علمائے کرام تو اس کے لیے سند کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ تحقیق وتنقیح کے پیچھے نہ پڑنا اور بغیر تحقیق کے تعظیم وتبرک میں پڑنا کم