کتاب: تبرکات - صفحہ 89
مَوْضِعَ قَدَمٍ، وَیَزْعَمُوْنَ عِنْدَ الْجُہَّالِ أَنَّ ہٰذَا الْمَوْضِعَِ قَدَمُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ ’’یہ (تعظیم والا معاملہ)تو اس وقت (زیر بحث آ سکتا)ہے،جب ان جوتوں کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔لیکن اگر ان کی صحت کا علم ہی نہیں یا ان کا جھوٹا ہونا بالکل معلوم ہے،جس طرح بعض جھوٹے لوگ پتھر لے کر اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کا نقش بناتے ہیں اور پھرجاہلوں کے سامنے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس جگہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان ہیں ،تو اس صورت ِحال میں ان کی تعظیم کیسے درست ہو سکتی ہے؟‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم : 2/337) ٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ)فرماتے ہیں : مِثْلُ ہٰذَا یَقُوْلُہٗ ہٰذَا الْإِمَامُ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِیْنَ سَنَۃً، فَمَا الَّذِي نَقُوْلُہٗ نَحْنُ فِي وَقْتِنَا لَوْ وَجَدْنَا بَعْضَ شَعْرِہٖ بِإِسْنَادٍ ثَابِتٍ، أَوْ شِسْعَ نَعْلٍ کَانَ لَہٗ، أَوْ قُلاَمَۃَ ظُفْرٍ، أَوْ شَقَفَۃً مِّنْ إِنَائٍ شَرِبَ فِیْہِ، فَلَوْ بَذَلَ الغَنِيُّ مُعْظَمَ أَمْوَالِہٖ فِي تَحْصِیْلِ شَيْئٍ مِّنْ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ، أَکُنْتَ تَعُدُّہٗ مُبَذِّرًا أَوْ سَفِیْہًا؟ کَلاَّ ۔ ’’یہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پچاس سال بعد اس امام (محمد بن سیرین رحمہ اللہ ) نے کہی ہے۔اب اگر ہمارے زمانے میں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال،جوتے کے تسمے،ناخن اور برتن کا ٹکڑا،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی نوش فرمایا کرتے تھے، کا ثبوت صحت ِسند کے ساتھ مل جائے تو ہم کیا کہیں گے؟اگر کوئی امیر آدمی اس