کتاب: تبرکات - صفحہ 88
گاکہ بلاشبہ تعظیم آثار نبوی علامات ایمان میں سے ہے، جس کا ثبوت احادیث صحیحہ سے ہوتا ہے،لیکن وہ تعظیم اور تبرک انہیں طرق میں منحصر ہے جو احادیث سے ثابت ہیں اور یہ تعظیم اس بات کی فرع ہے کہ ان آثار و تبرکات کا انتساب حضور سرورکائنات علیہ السلام والصلاۃ کی ذات اقدس کی طرف صحیح ہو اور صحت انتساب صحت روایت پر موقوف ہے، پس جو آثار بصحت روایت ثابت ہیں ، بلاشبہ ان کی تعظیم حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریقہ کے موافق کرنا چاہئے اور ان سے برکت حاصل کرنے میں کوئی شبہ نہیں اور جو بصحت ِروایت ثابت نہ ہوں ،اُن کے ساتھ بے تحقیق کیے ہوئے وہ معاملہ کرنا جو آپ کے آثارِ ثابتہ سے کرنا چاہئے، ایسا ہے جیسے بے سند کلام کو حدیث کہنا اور اُس پر عمل کرنا جن کی نسبت سخت وعید وارد ہے۔‘‘ (مَجموع الفتاوی : 3/175۔176) ایک بریلوی مفتی صاحب کی رائے : محمد شریف الحق امجدی صاحب(مبارک پور، اعظم گڑھ، یو، پی) نے لکھا ہے: ’’محض شاہی مسجد میں رکھا ہونا کوئی ثبوت نہیں کہ فلاں چیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی استعمال کی ہوئی ہے، اس کے لیے ثبوت کی حاجت ہے، اس لیے دلیل آپ کے ذمے ہے۔‘‘ (فتاویٰ شارح بخاری : 1/479) موجودہ آثار اور اہل علم : ٭ شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ)فرماتے ہیں : ہٰذَا إِذَا کَانَ النَّعْلُ صَحِیْحًا، فَکَیْفَ بِمَا لَا یُعْلَمُ صِحَّتُہٗ، أَوْ بِمَا یُعْلَمُ أَنَّہٗ مَکْذُوْبٌ، کَحِجَارَۃٍ کَثِیْرَۃٍ یَّأْخُذُہَا الْکَذَّابُوْنَ وَیَنْحِتُوْنَ فِیْہَا