کتاب: تبرکات - صفحہ 87
صورت میں ہے کہ جبکہ اس طریقہ مخترعہ میں کوئی امر خاص صریح منہیات شرعیہ اور محرمات یقینیہ سے شامل نہ ہو اور اگر اس طریقہ مخترعہ میں کوئی امر محرمات شرعیہ سے بھی شامل کیا جائے تو ایسی حالت میں دو نقصان ہوں گے، ایک تو طریق خاص کا احداث اور دوسرے محرمات شرعیہ کا ارتکاب اور ان دونوں باتوں کا حکم یہ ہے کہ ان کا مرتکب غیر مستحل فاسق اور مستحل کافر ہے۔
دوسری اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ جو برکت اور تعظیم حضور سرور انبیا علیہ التحیۃ والثنا کے آثار کے لیے ثابت ہے، وہ حضور ہی کے آثار کے ساتھ مخصوص ہے، دوسرے کے آثار کے ساتھ وہ معاملہ کرنا جو آپ کے آثار کے ساتھ مخصوص ہے، حرام ہے۔ پس ضرور ہوا جس کسی خاص جبہ اور خاص لباس اور خاص بال کی نسبت یہ دعوی کیا جائے کہ حضور روحی فداہ کے آثار ہیں تو اول اس بات کا یقین حاصل کیا جائے کہ فی الواقع یہ آثار آپ کے ہیں یا دوسرے شخص کے ہیں ، جن کو آپ کی جانب کسی طمع سے نسبت کر دی ہے تاکہ اس یقین سے غیر کے آثار کے ساتھ آنحضرت کے آثار کا ایسا برتاؤ لازم نہ آئے اور اس قسم کا یقین کا حصول ایسے امور کی نسبت بغیر طریقے کے متعذر ہے، جس کو محدثین رحمہم اللہ نے روایتِ حدیث میں اختیار کیا ہے، کیونکہ اثبات آثار نبوی بھی حدیث ہے،جو رسول سے مروی ہو اور جو حدیثِ رسول سے مروی ہو،اس میں یہی طریقہ مسلوک ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ جب اُن آثار کا ثبوت ایسے طریق روایت پر موقوف ہو تو اس کی صحت اور عدم صحت بھی صحت اسناد اور عدم صحت اسناد پر موقوف ہو گی اور جب اس کے لیے سند ضعیف بھی میسر نہ ہو تو صرف جاہلوں کے محضرنامے اس کو ثابت نہیں کر سکتے، پس خلاصہ کلام کا یہ ہو