کتاب: تبرکات - صفحہ 86
تعظیم اور عبادت کرنے لگتے، لہٰذااس کا مخفی رہنا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔‘‘ (شرح صحیح مسلم : 5/13) جب زمین کا ایک ظاہری ٹکڑا صحابہ پر مخفی ہو گیا،توہمارے زمانہ میں قطعیت اور یقین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تبرکات کی نسبت کا دعویٰ ممکن نہیں ۔یہ نسل در نسل ثقہ اور معتبر راویوں کے واسطے سے ہم تک نہیں پہنچے، نہ ان کے متعلق دعویٔ تواتر ثابت ہے۔ محض جھوٹے اور بد عقیدہ لوگوں کی باتوں کا کیا اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ ایسے لوگوں کے بے بنیاد دعووں کا اللہ رب العزت نے ہمیں مکلف نہیں ٹھہرایا،جو دروغ گوئی میں بے باک ہیں ۔ موجودہ آثار کے بارے معروف حنفی عالم کی رائے : برصغیر پاک و ہند کے مشہور حنفی عالم علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ کی آثارِ انبیا کے بارے میں نصیحت آموز تحریر ملاحظہ ہو: ’’پس ان تمام احادیث و روایات سے اہل ایمان کی نظر میں بہ خوبی ثابت ہے کہ جملہ آثار و مشاہد نبوی سے برکت حاصل کرنا اور ان کی عظمت کرنا اللہ کی نعمتوں میں سے عمدہ نعمت ہے اور اس قسم کی برکت اور تعظیم کا ثبوت خود حضور روحی فداہ اور حضرات صحابہ کرام علیہم السلام کے افعال سے پایا جاتا ہے، لیکن مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ جس طرح ان احادیث سے آثار نبوی کی برکت اور تعظیم کا ثبوت ہوتا ہے، اسی طرح تعظیم اور برکت حاصل کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہوتا ہے، پس جس طرح وہ شخص جو منکر برکت آثار نبویہ ہو، بددین اور گناہ گار ہے،اسی طرح وہ شخص بھی مبتدع اور مخالف سنت سمجھا جائے گا جو طریق مرویہ حدیث کے خلاف تعظیم کا کوئی خاص طریقہ اپنی طرف سے ایجاد کرے، کیونکہ مخالفت ِسنت میں دونوں برابر ہیں اور یہ اس