کتاب: تبرکات - صفحہ 85
کہ اس سال کے بعد اس درخت کا مخفی ہو جانا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔‘‘
(فتح الباري : 6/118)
٭ امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں ـ :
کَانَ أَبِي مِمَّنْ بَایَعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الشَّجَرَۃِ، قَالَ : فَانْطَلَقْنَا فِي قَابِلٍ حَاجِّینَ، فَخَفِيَ عَلَیْنَا مَکَانُہَا، فَإِنْ کَانَتْ تَبَیَّنَتْ لَکُمْ؛ فَأَنْتُمْ أَعْلَمُ ۔
’’میرے والد گرامی ان لوگوں میں شامل تھے،جنہوں نے درخت کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ پر بیعت کی تھی۔وہ فرماتے ہیں کہ دوسرے سال جب ہم حج کرنے کے لیے گئے،تو ہمیں درخت والی جگہ نہ ملی۔اگر وہ تمہارے سامنے ظاہر ہو جائے، تو تم زیادہ سمجھ دار ہو۔‘‘
(صحیح مسلم : 1859)
٭ حافظ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :
قَالَ الْعُلَمَائُ : سَبَبُ خَفَائِہَا أَلَّا یُفْتَتَنَ النَّاسُ بِہَا لِمَا جَرٰی تَحْتہَا مِنَ الْخَیْرِ وَنُزُولِ الرِّضْوَانِ وَالسَّکِینَۃِ وَغَیْرِ ذٰلِکَ، فَلَوْ بَقِیَتْ ظَاہِرَۃً مَّعْلُومَۃً لَّخِیفَ تَعْظِیمُ الْـأَعْرَابِ وَالْجُہَّالِ إِیَّاہَا وَعِبَادَتُہُمْ لَہَا، فَکَانَ خَفَاؤُہَا رَحْمَۃٌ مِّنَ اللّٰہ تَعَالٰی ۔
’’علمائے کرام نے اس کے مفقود ہونے کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ اس درخت کے نیچے جو خیر، خوشنودی اور سکینت وغیرہ ملی تھی،اس کی وجہ سے لوگ فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں ۔اگر وہ ظاہر اور معلوم رہتا تو دیہاتی اور جاہل لوگ اس کی