کتاب: تبرکات - صفحہ 84
رَجَعْنَا مِنَ الْعَامِ المُقْبِلِ، فَمَا اجْتَمَعَ مِنَّا اثْنَانِ عَلَی الشَّجَرَۃِ الَّتِي بَایَعْنَا تَحْتَہَا، کَانَتْ رَحْمَۃً مِّنَ اللّٰہِ ۔ ’’ہم(مقام حدیبیہ پر)صلح حدیبیہ کے دوسرے سال آئے،تو ہم میں سے دو آدمی بھی اس درخت کی نشاندہی پر متفق نہ ہو سکے، جس کے نیچے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔‘‘ (صحیح البخاري : 2958) ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : أَنْ لَّا یَحْصُلَ بِہَا افْتِتَانٌ لِّمَا وَقَعَ تَحْتَہَا مِنَ الْخَیْرِ، فَلَوْ بَقِیَتْ لَمَا أُمِنَ تَعْظِیْمُ بَعْضِ الْجُہَّالِ لَہَا، حَتّٰی رُبَّمَا أَفْضٰی بِہِمْ إِلَی اعْتِقَادِ أَنَّ لَہَا قُوَّۃَ نَفْعٍ أَوْ ضَرٍّ، کَمَا نَرَاہُ الْآنَ مُشَاہَدًا فِیمَا ہُوَ دُونَہَا، وَإِلٰی ذٰلِکَ أَشَارَ ابْنُ عُمَرَ بِقَوْلِہٖ : کَانَتْ رَحْمَۃً مِّنَ اللّٰہِ، أَيْ کَانَ خَفَاؤُہَا عَلَیْہِمْ بَعْد ذٰلِکَ رَحْمَۃً مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی ۔ ’’(اسے بیان کرنے کی حکمت یہ ہے کہ)خیر کا جو معاملہ اس درخت کے نیچے رونما ہوا تھا،اس کی وجہ سے لوگ فتنے میں نہ پڑیں ۔اگر وہ باقی رہتا،تو بعض جاہل لوگوں کی طرف سے اس کی تعظیم کرنے کا اندیشہ ردّ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ لوگ یہ عقیدہ گھڑ لیتے کہ درخت نفع و نقصان کا مالک ہے، جیسا کہ ہم اپنے مشاہدہ میں دیکھ رہے ہیں کہ اس سے کم تر چیزوں سے یہ معاملہ کیا جا رہا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بات میں اسی کی طرف اشارہ کیا تھا