کتاب: تبرکات - صفحہ 82
کہ جھوٹ منسوب کرنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث صادق آتی ہے:
’مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ؛ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ‘ ۔
’’جو شخص مجھ پر جھوٹ بولے،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے۔‘‘
(صحیح البخاري : 107، صحیح مسلم : 3)
اسی طرح کسی ایسے اثر،مثلاً نعلین،بال،جبہ یا پگڑی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا، جو درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ ہو،تو ایسا شخص بھی بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ بالا وعید کا مصداق ہو گا۔لہٰذا ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے،جو خود ساختہ تبرکات ِنبویہ لوگوں میں متعارف کراتے ہیں یا ان کی تشہیر کا سبب بنتے ہیں ۔
اگر کوئی شخص چودہ سوسال گزر جانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب تبرکات کا دعویٰ کرتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دعویٰ پر صحیح سند پیش کرے۔
اگر کوئی کہے کہ یہ نعلین شریفین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں یا یہ مبارک بال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں ، تو کیا اتنی سی بات پر ان نعلین اور بالوں کی تعظیم و تکریم کرنا شروع کردیں گے؟ ان سے تبرک حاصل کرنے لگیں گے،یا اس انتساب پر صحیح سند کا بھی مطالبہ کریں گے؟اگر وہ صحیح ثبوت فراہم نہ کر سکے توان چیزوں کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا در حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر جھوٹ باندھنا ہے،لہٰذا اس معاملہ کی حساسیت کو سمجھنا ہو گا۔
یہ بات بجا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی چیز باوثوق ذرائع سے ثابت ہو جائے، تو اس سے تبرک کا انکار کرنا سر ا سر بد بختی ہے،لیکن المیہ یہ ہے کہ بعض لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ کو انتہائی کم سمجھ لیتے ہیں ، حالاں کہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے۔