کتاب: تبرکات - صفحہ 80
سال کامل صاحب ِفراش رہیں ،مگر نہ قلبی ولسانی ذکر اللہ میں فرق آیا اور صبر ورضا بر قضا میں کمی لاحق ہوئی۔جس مریض کو تین سال مرضِ اسہال میں اس طرح گزریں کہ کروٹ بدلنا بھی دشوار ہو،اس کے متعلق یہ خیال بے موقع نہ تھا کہ بستر کی بدبو دھوبی کے یہاں بھی نہ جائے گی،مگر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ غسل کے لیے چارپائی سے اتارنے پر پوتڑے نکالے گئے،جو نیچے رکھ دیے جاتے تھے، تو ان میں بدبو کی جگہ خوشبو اور ایسی نِرالی مہک پھوٹتی تھی کہ ایک دوسرے کو سونگھاتا اور ہر مرد و عورت تعجب کرتا تھا۔چنانچہ بغیر دھلوائے ان کو تبرک بنا کر رکھ لیا گیا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل از محمد عاشق الٰہی میرٹھی، ص 96) جس شریعت میں صحابہ کرام جیسی مقدس ہستیوں کے لباسوں سے تبرک لینا روا نہ رکھا گیا،اس میں کسی عام آدمی کی نانی کے پاخانے والے پوتڑوں کے تبرک کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ ٭ مولانااشرف علی تھانوی صاحب بیان کرتے ہیں : ’’ایک متقی پرہیزگار بزرگ نے مجھے ایک انگرکھا(اچکن)مومی چھینٹ کا دیا تھا۔ میں اس کو تبرک سمجھ کر پہنتا تھا۔اس کا یہ اثر تھا کہ جب تک وہ بدن پر رہتا، معصیت اور گناہ کا خطرہ تک نہ آتا تھا۔لوگ کہتے ہیں کہ بزرگوں کے کپڑوں میں کیا رکھا ہے؟مگر میں نے تو یہ مشاہدہ کیا ہے۔‘‘ (مجالس حکیم الامت از مفتی محمد شفیع، ص : 100) کپڑوں سے تبرک صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا۔اس خصوصیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی شریک نہیں ہو سکتا۔جب صحابہ کرام وتابعین عظام نے خلفاء ِ راشدین کے کپڑوں سے تبرک حاصل نہیں کیا،تو صدیوں بعد کسی بزرگ کو یہ شرف کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟