کتاب: تبرکات - صفحہ 79
فحدث آپ نے بارہا یہ الفاظ فرمائے کہ مجھے حق تعالیٰ نے وہ شے عطا فرمائی ہے،جو دوسرے کے پاس نہیں ہے۔آپ کے پاس بیت اللہ زادھا اللہ شرفا وتعظیما کی مقدس چوکھٹ کا چھوٹا سا ایک ٹکڑا بھی تھا۔اس کی محبت و قدردانی بھی اسی درجہ کی تھی، بلکہ شاید اس سے بھی کچھ زیادہ۔
اعلی حضرت حاجی صاحب (امداد اللہ مہاجر مکی)کا عطا فرمایا ہوا جبہ بھی آپ کے پاس تھا۔یہ بھی انہیں تبرکات کے صندوقچہ میں رہتا تھا۔جس وقت آپ اس کو نکالتے،تو اوّل خود دست مبارک میں لے کر اپنی آنکھوں سے لگاتے اور پھر یکے بعد دیگرے دوسروں کو سر پر رکھنے کا موقع عطا فرماتے تھے۔اس وقت آپ پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی اور یوں فرمایا کرتے تھے کہ اس کو کئی سال حضرت نے پہنا اور پھر مجھ کو خصوصیت کے ساتھ عطا فرمایا تھا۔جو شخص لے کر آیا تھا، اسے یوں کہلا بھیجا تھا کہ اس کو پہننا۔ سو کبھی کبھی تعمیل ارشاد کو پہنا کرتا ہوں ۔تبرک ہے، رکھ چھوڑا ہے۔‘‘
(تذکرۃ الرشید : 2/167۔168)
قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے خلاف تبرک کی نئی صورتیں نکالنا کوئی محبت کی نشانی نہیں ۔ محبت وہی ہے جو شریعت کی ہدایات کے مطابق کی جائے۔
پاخانے سے تبرک :
جب کوئی انسان سلف صالحین اور ائمہ ہدیٰ کے راستے سے ہٹ جائے،تو اس سے مضحکہ خیز حرکات و سکنات کا صدور یقینی ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ الیاس صاحب کی نانی جی کے متعلق آتا ہے :
’’بی امی کی عمر طویل ہوئی اور انہوں نے نواسوں کی اولاد کو بھی دیکھا۔ اخیر عمر میں بصارت اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی تھیں اور مرض الموت میں تین