کتاب: تبرکات - صفحہ 74
’’کعبہ کی کوئی خوشبو لینا جائز نہیں ،نہ تبرک کے لیے نہ کسی اور مقصد کے لیے۔ جو شخص وہاں سے کوئی چیز لے،اسے لوٹانا لازم ہے۔اگر اس کا ارادہ تبرک کا ہو، تو وہ اپنی خوشبو لے آئے اور کعبہ سے مس کر کے ساتھ لے جائے۔‘‘
(فتاویٰ عالمگیری : 1/265)
یہ حصولِ تبرک کا نیا طریقہ ہے،جسے صحابہ و تابعین اور ائمہ دین نہیں جانتے تھے۔ اس کے بدعت ہونے کے لیے یہی کافی ہے۔
٭ مولانااشرف علی تھانوی صاحب کہتے ہیں :
’’غلاف کعبہ زادھا اللہ تنویراً کے تبرک ہونے اور اس کی تقبیل تبرک کے جواز میں کوئی کلام نہیں ۔اگر بوسہ دینے میں صرف اسی قدر اعتقاد ہو اور کسی کو ایذا بھی نہ ہو، تو کچھ مضائقہ نہیں ،موجب ثواب وبرکت ہے۔‘‘
(فتاویٰ اشرفیہ، ص 65)
یہ غلو پر مبنی بدعی نظریہ ہے۔سوائے حجر اسود کے کسی چیز کو بطور ِتبرک چومنا جائز نہیں ۔
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (۸۵۵ھ) لکھتے ہیں :
فِیہِ کَرَاھِیَۃُ تَقْبِیلِ مَا لَمْ یَرِدِ الشَّرْعُ بِتَقْبِیلِہٖ مِنَ الْـأَحْجَارِ وَغَیْرِہَا ۔
’’اس(سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان)سے ثابت ہوتا ہے کہ جن پتھروں وغیرہ کے چومنے کا ذکر شریعت میں موجود نہیں ،انہیں چومنا مکروہ ہے۔‘‘
(عمدۃ القاري : 9/241)
غلافِ کعبہ کے چومنے پر کون سی شرعی دلیل ہے؟
مولانا گنگوہی صاحب اور تبرکات :
٭ جناب محمد عاشق الٰہی میرٹھی صاحب، مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب کے بارے