کتاب: تبرکات - صفحہ 72
گمان ہوتا ہے۔ ہم اللہ کے ہاں ان کے نیک ہونے کی امید رکھتے ہیں ۔ 3. اگر ہم کسی شخص کے نیک ہونے کا گمان کر بھی لیں ،تو اس بات کا خدشہ ختم نہیں ہوتا کہ ان کا خاتمہ بُرا ہو جائے،جبکہ اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے۔ اگر کسی کا خاتمہ بُرا ہو جائے،تو وہ تبرک کا اہل نہیں رہے گا۔ 4. صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی سے تبرک نہیں لیا،نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد۔اگر یہ نیکی کا کام ہوتا،تو وہ ضرور ہم سے پہلے اسے کرتے۔صحابہ کرام نے سیدنا ابوبکروعمر اور عثمان وعلی وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ایسا کیوں نہ کیا،جن کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی گواہی دی تھی؟اسی طرح تابعین کرام نے امام سعید بن مسیب، علی بن حسین، اویس قرنی،حسن بصری وغیرہ رحمہم اللہ سے کیوں تبرک نہ لیا،جن کو یقینی طور پر نیک کہا جا سکتا ہے؟ اس سے معلوم ہوا کہ تبرک کا معاملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص تھا۔ 5. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کا تبرک لینے سے یہ خطرہ پیدا ہو جائے گا کہ ایسا کرنا اسے فتنے میں مبتلا نہ کردے۔وہ اس وجہ سے خود پسندی، تکبر اور ریاکاری کا شکار نہ ہو جائے۔یہ معاملہ کسی کے سامنے تعریف کرنے کی طرح ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر مضر ہے۔‘‘ (تیسیر العزیز الحمید، ص 150۔151) ٭ علامہ ڈاکٹر شمس الدین،افغانی،سلفی رحمہ اللہ (1420ھ)لکھتے ہیں : تَبَرُّکٌ بِدْعِيٌّ؛ وَہُوَ مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ طَلَبُ الْخَیْرِ وَالنَّمَائِ مِنْ غَیْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی فِیمَا لَا یَقْدِرُ عَلَیْہِ إِلَّا اللّٰہ، بَلْ کَانَ فِیہِ طَلَبُ الْخَیْرِ وَالنَّمَائِ مِنَ