کتاب: تبرکات - صفحہ 71
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُؤْمَنُ أَنْ یُّفْتِنَہٗ، وَتَعْجَبَہٗ نَفْسُہٗ، فَیُورِثُہُ الْعُجْبَ وَالْکِبْرَ وَالرِیَائَ، فَیَکُونُ ہٰذَا کَالْمَدْحِ فِي الْوَجْہِ، بَلْ أَعْظَمُ ۔ ’’بعض متاخرین نے ذکر کیا ہے کہ نیک لوگوں کے آثار سے تبرک لینا مستحب ہے، مثلاً ان کا بچا ہوا پانی وغیرہ پینا،ان کے جسم یا کپڑوں کو چھونا،نومولود بچے کو ان میں سے کسی کے پاس لے کر جانا تاکہ وہ اسے کھجور کی گھٹی دے اور بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز داخل ہو،وہ نیک لوگوں کا لعاب ہو،اسی طرح ان کے پسینے سے برکت حاصل کرناوغیرہ۔اس قسم کی بہت سی باتیں علامہ ابوزکریا نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں ان احادیث کے تحت کی ہیں ، جن میں صحابہ کرام کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک لینے کا بیان تھا۔علامہ نووی رحمہ اللہ نے یہ سمجھ لیا کہ باقی نیک لوگوں کا بھی اس سلسلے میں وہی معاملہ ہے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا،لیکن یہ واضح غلطی ہے۔اس کی کئی وجوہات ہیں ؛ 1.نیک لوگ فضل و برکت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر تو کجا قریب قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ 2. عام نیک لوگوں کی نیکی متحقق نہیں ہوتی،کیونکہ نیکی تو دل کی پاکیزگی سے ثابت ہوتی ہے اور دل کا معاملہ ایسا ہے،جس کا علم صرف نص سے ہو سکتا ہے۔مثلاً صحابہ کرام جن کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی یا تابعین ائمہ اور وہ لوگ جن کی نیکی اور دین داری مشہور ہو گئی،جیسے ائمہ اربعہ وغیرہ،جن کی نیکی کی ساری امت گواہی دیتی ہے۔یہ سب لوگ تو گزر چکے ہیں ۔ رہے باقی نیک لوگ،تو ان کی نیکی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ہمارا