کتاب: تبرکات - صفحہ 69
کیونکہ وہ خیرو برکت کے حصول پر بہت زیادہ حریص تھے۔وہ دین ہی کیا جس کا بافضیلت زمانوں میں ذکر تک نہ ہو؟
مولانا احمد رضا خان صاحب کس قدر غلو میں مبتلا ہیں ! لکھتے ہیں :
’’لہٰذا دربارہ کربلائے معلی(قبر حسین رضی اللہ عنہ )اب صرف کاغذ پر صحیح نقشہ لکھا ہوا محض بقصد ِتبرک بے آمیزش منہیات پاس رکھنے کی اجازت ہو سکتی ہے۔‘‘
(فتاویٔ رضویہ، ج 21، ص424)
نیز لکھتے ہیں :
’’یونہی اگر روضہ مبارکہ حضرت شہزادہ گلگوں قبا حسین شہید ظلم و جفا صلوات اللہ وتعالیٰ وسلامہ علی جدہ الکریم وعلیہ کی صحیح مثل بنا کر محض تبرک بے آمیزش منکرات شرعیہ مکا ن میں رکھے تو شرعاً کوئی حرج نہ تھا۔‘‘
(فتاویٔ رضویہ : 21/423)
قارئین کرام! جس مذہب پر قرآن و حدیث،آثار ِصحابہ اور ائمہ محدثین کے قول و فعل سے دلیل نہ ملے،یقینا وہ عجمی اور بدعی مذہب ہے۔
٭ شیخ سلیمان بن عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ (1233ھ)لکھتے ہیں :
ذَکَرَ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِینَ أَنَّ التَّبَرُّکَ بِآثَارِ الصَّالِحِینَ مُسْتَحَبٌّ کَشُرْبِ سُؤْرِہِمْ، وَالتَّمَسُّحُ بِہِمْ أَوْ بِثِیَابِہِمْ، وَحَمْلِ الْمَوْلُودِ إِلٰی أَحَدٍ مِّنْہُمْ لِیُحَنِّکَہٗ بِتَمْرَۃٍ حَتّٰی یَکُونَ أَوَّلَ مَا یَدْخُلُ جَوْفَہٗ رِیقُ الصَّالِحِینَ، وَالتَّبَرُّکُ بِعَرَقِہِمْ وَنَحْوِ ذٰلِکَ، وَقَدْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ أَبُو زَکَرِیَّا النَّوَوِيُّ فِي شَرْحِ مُسْلِمٍ فِي الْـأَحَادِیثِ الَّتِي فِیہَا أَنَّ الصَّحَابَۃِ فَعَلُوا شَیْئًا مِّنْ ذٰلِکَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَظَنَّ