کتاب: تبرکات - صفحہ 67
أَعْظَمُ مِنْ ذٰلِکَ مِنْ مُّشَابَہَتِہِمُ الْمُشْرِکِینَ، أَوْ ہُوَ الشِّرْکُ بِعَیْنِہٖ؟ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کے ساتھ محض اس مشابہت پر سختی سے ردّ فرمایا کہ ایک درخت مقرر کیا جائے،جس کے اردگرد وہ بیٹھا کریں اور اس پر اپنا اسلحہ لٹکائیں ۔ ایسی صورت میں وہ کام کیسے جائز ہو سکتا ہے،جو اس سے بڑھ کر مشرکین سے مشابہت کا باعث ہو یا بعینہٖ شرک ہو؟‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم : 2/158) ٭ علامہ،محمد بن صالح،عثیمین رحمہ اللہ (1421ھ)فرماتے ہیں :ـ ہٰؤُلَائِ طَلَبُوا سِدْرَۃً یَّتَبَرَّکُونَ بِہَا کَمَا یَتَبَرَّکُ الْمُشْرِکُونَ بِہَا، وَأُولٰئِکَ طَلَبُوا إِلٰہًا کَمَا لَہُمْ آلِہَۃً، فَیَکُونُ فِي کِلَا الطَّلَبَیْنِ مُنَافَاۃٌ لِّلتَّوْحِیدِ، لِأَنَّ التَّبَرُّکَ بِالشَّجَرِ نَوْعٌ مِّنَ الشِّرْکِ، وَاتِّخَاذُہٗ إِلٰہًا شِرْکٌ وَّاضِحٌ ۔ ’’صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے بیری کا ایک درخت ہونا چاہئے جس سے وہ تبرک حاصل کریں ،جیسا کہ مشرکین تبرک حاصل کرتے تھے، جبکہ موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں نے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے معبود ہوں ، جیسے اس دور کے کفار نے بنائے ہوئے تھے۔ان دونوں مطالبات میں توحید کی نفی تھی،کیونکہ درختوں سے تبرک شرک کی ایک قسم ہے اور ان کو الٰہ بنانا واضح شرک ہے۔‘‘ (القَول المُفید علی کتاب التّوحید : 1/205)