کتاب: تبرکات - صفحہ 63
وَتَعْظِیمٌ لِّلّٰہِ، وَخُضُوعٌ لِّعَظَمَتِہٖ، فَہُوَ رُوحُ التَّعَبُّدِ، فَہٰذَا تَعْظِیمٌ لِّلْخَالِقِ وَتَعَبُّدٌ لَّہٗ، وَذٰلِکَ تَعْظِیمٌ لِّلْمَخْلُوقِ وَتَأَلُّہٌ لَّہٗ، فَالْفَرْقُ بَیْنَ الْـأَمْرَیْنِ کَالْفَرْقِ بَیْنَ الدُّعَائِ لِلّٰہِ الَّذِي ہُوَ إِخْلَاصٌ وَّتَوْحِیدٌ، وَالدُّعَائُ لِلْمَخْلُوقِ الَّذِي ہُوَ شِرْک ٌوَّتَنْدِیدٌ ۔ ’’یہ اعمال شرک ہیں اور مشرکین کے اعمال ہیں ،کیونکہ علمائِ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ شجرو حجراور مزارات وغیرہ میں سے کسی بھی چیز سے تبرک لینا جائز نہیں ۔یہ تبرک غلو پر مبنی ہے اور یہ عمل بتدریج دعا اور عبادت کی طرف لے جاتا ہے،جو کہ شرکِ اکبر ہے۔سابقہ سطور میں اسے شرکِ اکبر قرار دینے پر بات ہو چکی ہے۔ یہ قاعدہ ہر چیز کے لیے عام ہے،حتی کہ مقامِ ابراہیم،حجرۂ نبوی اور بیت المقدس وغیرہ جیسی فضیلت والی جگہیں بھی اس میں شامل ہیں ۔رہا حجر اسود کا استلام اور اس کو چومنا اور کعبہ شریف کے رکن یمانی کا استلام،تو یہ اللہ کی عبادت،اس کی تعظیم اور اس کی عظمت کے آگے جھکنا ہے۔یہی عبادت کی روح ہوتی ہے۔ یہ خالق کی تعظیم اور عبادت ہے،جبکہ اشجارو احجار اور مزارات سے تبرک لینا مخلوق کی تعظیم و عبادت ہے۔ان دونوں میں وہی فرق ہے،جو اللہ اور مخلوق کو پکارنے میں ہے۔اللہ کو پکارنا اخلاص اور توحید ہے،جبکہ مخلوق کو(مافوق الاسباب) پکارنا شرک اور ساجھی بنانا ہے۔‘‘ (القَول السّدید شرح کتاب التّوحید، ص 50) ایک دلیل : ممنوع تبرک کے شرک میں داخل ہونے کی ایک دلیل ملاحظہ فرمائیں :