کتاب: تبرکات - صفحہ 62
’’زمانہ جاہلیت میں لوگ ایسے مقامات کی زیارت کے لیے جاتے تھے جو ان کے خیال میں قابل احترام ہوتے تھے،وہ ان سے برکت حاصل کرتے تھے۔ اس عمل میں چونکہ واضح طور پر تحریف اور فساد موجود تھا،اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بگاڑ کے اس دروازے کو بند کر دیا تاکہ جو چیزیں شعائر ِاسلام میں شامل نہیں ، وہ شعائر میں شامل نہ ہو جائیں اور غیر اللہ کی عبادت کا ذریعہ نہ بن جائیں ۔ میرے نزدیک حق بات یہ ہے کہ قبر،کسی ولی کی عبادت گاہ،حتی کہ کوہِ طور سب اس (حکم ممانعت) میں برابر ہیں (ان سب کی طرف تقرب وتبرک کی نیت سے سفر ممنوع ہے)۔‘‘
(حُجّۃ اللّٰہ البالغۃ، من أبواب الصلاۃ : 1/192)
٭ شیخ عبد الرحمن بن ناصر، سعدی رحمہ اللہ (1376ھ)لکھتے ہیں :
إِنَّ ذٰلِکَ مِنَ الشِّرْکِ وَمِنْ أَعْمَالِ الْمُشْرِکِینَ، فَإِنَّ الْعُلَمَائَ اتَّفَقُوا عَلٰی أَنَّہٗ لَا یُشْرَعُ التَّبَرُّکُ بِشَيْئٍ مِّنَ الْـأَشْجَارِ وَالْـأَحْجَارِ وَالْبُقَعِ وَالْمَشَاہِدِ وَغَیْرِہَا، فَإِنَّ ہٰذَا التَّبَرُّکَ غُلُوٌّ فِیہَا، وَذٰلِکَ یَتَدَرَّجُ بِہٖ إِلٰی دُعَائِہَا وَعِبَادَتِہَا، وَہٰذَا ہُوَ الشِّرْکُ الْـأَکْبَرُ، کَمَا تَقَدَّمَ انْطِبَاقُ الْحَدِّ عَلَیْہِ، وَہٰذَا عَامٌّ فِي کُلِّ شَيْئٍ حَتّٰی مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ وَحُجْرَۃِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَخْرَۃِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ وَغَیْرِہَا مِنَ الْبُقَعِ الْفَاضِلَۃِ، وَأَمَّا اسْتِلَامُ الْحَجَرِ الْـأَسْوَدِ وَتَقْبِیلُہٗ، وَاسْتِلَامُ الرُّکْنِ الْیَمَانِيِّ مِنَ الْکَعْبَۃِ الْمُشَرَّفَۃِ، فَہٰذَا عُبُودِیَّۃٌ لِّلّٰہِ،