کتاب: تبرکات - صفحہ 56
ہے۔ وہ کنویں اور چشمے بھی اسی حکم میں ہیں ،جن کا تعلق ان لوگوں سے تھا،جو اپنے کفر پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔‘‘
(فتح الباري : 6/380)
یعنی اس معاملہ کا تعلق تبرک سے ہے ہی نہیں ۔ یہ خیال کرنا کہ وہ پانی مبارک تھا، کیونکہ سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی وہ پانی پیتی تھی،بلادلیل ہے اور کسی کی بلادلیل بات قابل قبول نہیں ہوتی۔
لہٰذا علامہ نووی رحمہ اللہ (شرح صحیح مسلم : 18/112) اور علامہ قرطبی رحمہ اللہ (الجامع لاحکام القرآن : 47/10)کی طرف مذکورہ حدیث سے صالحین کے آثار سے تبرک لینے کے جواز کا استدلال درست نہیں ۔
حیات مبارکہ کے ساتھ خاص تبرک:
یہاں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ تبرک کی کئی صورتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ تک محدود تھیں ، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد ِاقدس،دست ِمبارک،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے ہوئے پانی، پسینہ مبارک، لعاب دہن، ناخن مبارک، وغیرہ سے تبرک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ تک ہی ہو سکتا تھا۔
بعد از وفات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک:
بعد از وفات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک کی دو صورتیں ہی باقی رَہ گئی ہیں :
1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کر کے خیر کثیر،اجر ِعظیم اور سعادت ِدارین حاصل کرنا۔
٭ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں :