کتاب: تبرکات - صفحہ 55
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم فرمایا کہ اس وادی کے کنویں سے جو پانی نکالا ہے،اسے پھینک دو اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلا دو۔ أَمَرَھُمْ أَنْ یَسْتَقُوا مِنَ الْبِئْرِ الَّتِي کَانَتْ تَرِدُھَا النَّاقَۃُ ۔ ’’نیز انہیں فرمایا کہ وہ اس کنویں سے پانی لیں ، جس پر سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی۔‘‘ (صحیح البخاري : 3379، صحیح مسلم : 2981) اس سے بعض لوگ استدلال کرتے ہیں کہ سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے پانی پینے کی وجہ سے وہ کنواں متبرک ہو گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے تبرک لینے کے لیے وہاں سے پانی لینے کا حکم فرمایا تھا۔ لیکن یہ بات نہایت غلط ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات خود متبرک تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے کسی اور نبی سے تبرک لینا بھی توہین ہے، چہ جائیکہ کسی اور نبی کی اونٹنی کے کنویں کے پانی سے تبرک لیا جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ منحوس وادی عذاب الٰہی کا شکار ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کے پانی پر بھی اس کا اثر ہوا تھا، جو صحت کے لیے نقصان دہ تھا۔ البتہ جس کنویں سے سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی،اس کا معاملہ مختلف تھا۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ)لکھتے ہیں : فِي الْحَدِیثِ کَرَاہِیَۃُ الِاسْتِسْقَائِ مِنْ بِیَارِ ثَمُودَ، وَیَلْتَحَقُ بِھَا نَظَائِرُھَا مِنَ الْـآبَارِ وَالْعُیُونِ الَّتِي کَانَتْ لِمَنْ ھَلَکَ بِتَعْذِیبِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلٰی کُفْرِہٖ ۔ ’’اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قومِ ثمود کے کنوؤں سے پانی پینا مکروہ