کتاب: تبرکات - صفحہ 53
ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب اس آیت پر عنوان قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مسجد اقصیٰ کے گردو نواح کو انبیائے کرام کا مسکن ہونے کی وجہ سے بابرکت بنا دیا۔‘‘
(تبرک کی شرعی حیثیت، ص 28)
حالانکہ اللہ نے یہ بات نہیں بتائی کہ مسجد اقصیٰ کے اردگرد کو بابرکت کیوں بنایا گیا؟
اس کی دلیل ڈاکٹر صاحب نے یوں دی ہے :
’’علامہ قرطبی اور علامہ شوکانی کے قول کے مطابق بابرکت ہونے کی بڑی وجہ مزارات ِانبیا ہیں ۔‘‘(تبرک کی شرعی حیثیت، ص 29)
یہ علامہ قرطبی اور شوکانی رحمہما اللہ پر بہتان ہے۔ دونوں شخصیات نے قطعاً ایسا نہیں کہا۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قِیلَ : بِمَنْ دُفِنَ حَوْلَہٗ مِنَ الْـأَنْبِیَائِ وَالصَّالِحِینَ ۔
’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ برکت اردگرد دفن انبیا و صالحین کی وجہ سے ہے۔‘‘
(تفسیر القُرطبي : 10/212)
یعنی علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے تو کسی مجہول انسان کی بات کو بصیغۂ تمریض بیان کیا ہے۔یہ قرآن کی تفسیر کیسے بن گئی؟
خیر القرون میں سے کوئی بھی قبور ِانبیا و صالحین سے تبرک کا قائل و فاعل نہیں تھا۔ کیا صحابہ وتابعین اور ائمہ دین کو قرآنِ کریم کی یہ آیت سمجھ میں نہ آئی تھی؟دین کو سمجھنے کے لیے سلف صالحین کا فہم ہی اسلم و احکم ہے۔
قمیصِ یوسف علیہ السلام سے تبرک:
سیدنا یوسف علیہ السلام کے قصے میں قرآنِ کریم نے ان کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں :