کتاب: تبرکات - صفحہ 52
2. محمد بن اسحاق(حسن الحدیث)’’مدلس‘‘ہیں ، سماع کی تصریح نہیں کی۔ 3. محمد بن اسحاق کو یہ روایت بیان کرنے والا نامعلوم و ’’مجہول ‘‘ ہے۔ ٭ مولانااشرف علی تھانوی،صاحب مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں : ’’اس آیت میں اصل ہے آثار ِصالحین سے برکت حاصل کرنے کی۔‘‘ (بیان القرآن : 145) حالانکہ اس آیت میں تو تذکرہ موسیٰ وہارون علیہما السلام کے آثار کا ہے،بزرگانِ دین کے تبرکات سے فیض کیسے ثابت کر لیا گیا؟ہم تفصیل کے ساتھ یہ بات ذکر کر چکے ہیں کہ انبیائے کرام کے آثار سے تبرک شریعت کی روشنی میں جائز وثابت ہے، جبکہ دیگر صالحین کے آثار سے تبرک مشروع نہیں۔یہی وجہ ہے کہ خیرالقرون میں ایک انسان بھی اولیا و صالحین کے آثار سے تبرک حاصل نہیں کرتا تھا۔ انوکھی بات : اللہ تعالیٰ کا فرمانِ گرامی ہے : ﴿سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ آیَاتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ٭﴾ (بني إسرائیل : 1) ’’وہ (ذات)پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ(یعنی بیت المقدس)تک،جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں ،لے گئی تا کہ ہم اُسے اپنی(قدرت کی)نشانیاں دکھائیں ۔بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے ۔‘‘