کتاب: تبرکات - صفحہ 46
طرف متوجہ ہوئے۔اس کے بعد قبرپرستی میں مبتلا ہو گئے۔
سیدہ مریم علیہا السلام کے حجرہ سے تبرک:
ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب ’’حجرۂ مریم علیہا السلام سے حضرت زکریا علیہ السلام کا تبرک‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں :
’’حضرت زکریا علیہ السلام نے جب حضرت مریم علیہا السلام کے حجرے میں بے موسم پھلوں کو دیکھا،تو اسی جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کی ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیعُ الدُّعَائِ﴾(آل عمران : 38)
[اسی جگہ زکریا( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے دُعا کی،عرض کیا: میرے مولا!مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما۔بے شک تُو ہی دُعا کا سننے والا ہے]۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کا واسطہ تبرک و تیمن اور واسطہ توسل اختیار کرنا شرک نہ تھا۔اگر ایسا ہوتا،تو اللہ رب العزت خصوصیت کے ساتھ قرآن میں اس کا ذکر نہ فرماتا،کیونکہ الفاظ ربانی یوں ہیں : ﴿ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ﴾ یعنی اسی جگہ زکریا نے اپنے رب سے دُعا کی۔‘‘
(تبرک کی شرعی حیثیت، ص 40)
قادری صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ اس جگہ کو متبرک جان کر سیدنا زکریا علیہ السلام نے وہاں دُعا کی تھی،لیکن متقدمین ائمہ مفسرین کچھ اور ہی کہتے ہیں ۔آئیے ان سے اس آیت کی صحیح تفسیر جان کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ قادری صاحب کا یہ دعویٰ سچا ہے یا جھوٹا۔
٭ عبد الرحمن سدی کبیر رحمہ اللہ ( 127ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :